بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز کے لیے نیت کے الفاظ کا حکم


سوال

نماز سے  پہلے  نماز کی نیت کے الفاظ  پڑھنا درست ہے ، چاہے نماز جماعت سے ہو یا اکیلے کی؟

جواب

واضح رہے کہ نیت کرنے سے مقصود شرعاً دو چیزیں ہیں:

 1: عبادات کو عادات سے  ممتاز کرنا (مثلاً: کھڑا ہونا،  کبھی محض طبعی خواہش کی بنا پر ہوتا ہے اور یہی کھڑا ہونا جب نماز کی نیت سے ہو تو عبادت بن جاتا ہے)۔

2: بعض عبادات کو بعض سے ممتاز کرنا (مثلاً: ظہر اور عصر کی رکعات ایک جیسی ہیں،  مگر نیت الگ الگ ہونے سے یہ الگ الگ عبادتیں قرار پاتی ہیں)۔

اور نیت  درحقیقت دل سے ارادہ کرلینے کا نام ہے، لہٰذا نیت کی صحت کے لیے زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا لازم نہیں ہے، زبان سے نیت  کے الفاظ ادا کرنا بھی جائز ہے ، بدعت نہیں ہے، اور جو شخص زبان سے الفاظِ نیت ادا کیے بغیر اپنے دل کو مستحضر کرنے پر قادر نہ ہو تو اس کے لیے زبانی نیت کرنا بھی کافی ہے؛ بلکہ بہتر ہے۔ فرض، سنت اور نفل سب کا یہ حکم ہے۔

بصورتِ مسئولہ اکیلے نماز پڑھنے والے کے لیے صرف دل سے یہ ارادہ کرلینا کافی ہے  کہ:  میں فلاں وقت کی فرض نماز  (مثلاً ظہر، عصر) ادا کر رہا ہوں (تعدادِ رکعات اور قبلہ رخ ہونے کی نیت لازم نہیں) اور جماعت میں شامل ہونے والے مقتدی کے لیے دوباتوں کی نیت ضروری ہے: 

اول یہ کہ:  متعین کرے کہ کون سی نماز پڑھ رہا ہے؟

دوسرایہ کہ : نیت کرے کہ میں اس امام کی اقتدا میں نماز پڑھ رہا ہوں۔

جب کہ   جماعت کی نماز میں امام کے امام بننے کے لیے یہ لازم نہیں ہے کہ وہ نماز کے ساتھ اپنے امام ہونے کی بھی نیت کرے؛ بلکہ امامت  کی نیت کے بغیر بھی مقتدیوں کے لیے اس کی اقتداکرنا درست ہوجائے گا، تاہم امام کو امامت کا ثواب اسی وقت ملے گا جب کہ امامت کی نیت کرے۔

باقی سننِ مؤکدہ میں صرف یہ نیت کافی ہے کہ میں اتنی رکعت سنت نماز پڑھ رہا ہوں، یہ کہنا لازم نہیں کہ میں مثلاً: فجر یا ظہر کی سنت ادا کررہا ہوں، اس تعیین کے بغیر بھی سنتیں ادا ہوجاتی ہیں(اور اگر کوئی متعین کرلے تو کوئی حرج بھی نہیں)، اور نفل نمازوں میں صرف یہ نیت کافی ہے کہ میں نماز پڑھ رہا ہوں وقت وغیرہ کی تعیین ضروری نہیں ہے۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"(والمعتبر فيها عمل القلب اللازم للإرادة) فلا عبرة للذكر باللسان إن خالف القلب لأنه كلام لا نية إلا إذا عجز عن إحضاره لهموم أصابته فيكفيه اللسان مجتبى (وهو) أي عمل القلب (أن يعلم) عند الإرادة (بداهة) بلا تأمل (أي صلاة يصلي) فلو لم يعلم إلا بتأمل لم يجز.(والتلفظ) عند الإرادة (بها مستحب) هو المختار.

(قوله: و المعتبر فيها عمل القلب) أي أن الشرط الذي تتحقق به النية ويعتبر فيها شرعا العلم بالشيء بداهة الناشئ ذلك العلم عن الإرادة الجازمة لا مطلق العلم ولا مجرد القول باللسان. والحاصل أن معنى النية المعتبر في الشرع هو العلم المذكور، وهذا معنى ما نقل عن ابن سلمة كما قدمناه؟ وأما قولهم: لايصح تفسير النية بالعلم فالمراد به مطلق العلم الخالي عن القصد بقرينة الاعتراض المار فافهم، لكن في جعله العلم من أعمال القلب مسامحة؛ لأن العلم من الكيفيات النفسانية كما حقق في موضعه (قوله: إن خالف القلب) فلو قصد الظهر وتلفظ بالعصر سهوا أجزأه كما في الزاهدي قهستاني (قوله: فيكفيه اللسان) أي بدلا عن النية. واعترضه في الحلية بأنه يلزم عليه نصب الإبدال بالرأي لأنه إذا سقط الشرط للعجز فقد يسقط إلى بدل كما في التيمم أو بلا بدل كستر العورة، وقد يسقط المشروط كما في العاجز عن الطهورين فإثبات أحد هذه الاحتمالات لا بد له من دليل."

(كتاب الصلوة، باب شروط الصلوة، ج:1، ص:415، ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144209200060

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں