بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مویشی کو پالنے کی کرایہ پر دینے کی مروجہ صورت کا حکم


سوال

مروجہ مال مویشی کا پالنا جو ایک آدمی دوسرے چرواہے  یافارم والے کو دے دیتے ہیں، مال ایک کا ہوتا ہے اور دوسرا صرف اس کی دیکھ  بھال کرتا ہے اورپالتا ہے۔اس پر اپنی طرف سے خرچا کرتے ہیں  اور  آدھے  میں شریک ہوجاتاہے، جب فروخت کیا جاتا ہے تو قیمت آدھا آدھا تقسیم کر لیتے ہیں۔ کیا یہ کاروبار جائز ہے کہ ناجائز؟ اگر ناجائز تو  جائز ہونے  کی  کیا صورت ہے؟

جواب

بصورتِ مسئولہ مویشی کے مالک کا چرواہےیا کسی بھی فارم والے کو  اپنے جانور کی دیکھ بال   اور پرورش کرنے  کرنے کے  لیے ان کے ساتھ معاملہ اس طور پر کرنا  کہ جانور فروخت ہونے کے بعد جانور کی قیمت دونوں (یعنی مالک اور پالنے والا) آدھا آدھا تقسیم کریں گے، از رُوئے شرع مذکورہ معاملہ اجارۂ  فاسدہ ہونے  کی وجہ سے جائز نہیں ہے، لہذا دونوں کے ذمہ لازم ہے کہ اس طرح کا معاملہ فوراً ختم کریں ۔  البتہ اگر  اس طرح کا معاملہ کر لیا  گیاہے تو وہ جانور (اور اگر اس میں بچوں وغیرہ کا اضافہ ہوا ہے تو وہ بھی ) مویشی کے مالک کی ملکیت میں شمار ہوں گے،  اوران کے ذمہ  فارم والےیا   چرواہے کو   چارہ کی قیمت اور جو جانور  پالنے کی عام طور پر اجرت ہوتی ہے اس کا دینا واجب ہوگا۔

تاہم  مذکورہ معاملہ میں  جواز کی صورت  یہ ہوسکتی  ہے کہ  مالک  عقد کی ابتدا میں جانور کی مناسب قیمت لگا کر نصف حصہ پرورش کرنے والے (یعنی فارم والے یا چرواہے ) کے ہاتھ فروخت کردے، پھر اس کی قیمت  اسی کو معاف کردے، تو ایسی صورت میں جانور دونوں کے درمیان مشترک ہوجائیں گے، اور حاصل ہونے والا نفع بھی شرکت کی بنیاد پر دونوں کے درمیان مشترک ہوجائے گا۔

فتاوی عالمگیری  (الفتاوى الهندية) میں ہے:

"دَفَعَ بَقَرَةً إلَى رَجُلٍ عَلَى أَنْ يَعْلِفَهَا وَمَا يَكُونُ مِنْ اللَّبَنِ وَالسَّمْنِ بَيْنَهُمَا أَنْصَافًا فَالْإِجَارَةُ فَاسِدَةٌ، وَعَلَى صَاحِبِ الْبَقَرَةِ لِلرَّجُلِ أَجْرُ قِيَامِهِ وَقِيمَةُ عَلَفِهِ إنْ عَلَفَهَا مِنْ عَلَفٍ هُوَ مِلْكُهُ لَا مَا سَرَحَهَا فِي الْمَرْعَى، وَيَرُدُّ كُلَّ اللَّبَنِ إنْ كَانَ قَائِمًا.وَالْحِيلَةُ فِي جَوَازِهِ أَنْ يَبِيعَ نِصْفَ الْبَقَرَةِ مِنْهُ بِثَمَنٍ وَيُبَرِّئَهُ عَنْهُ ثُمَّ يَأْمُرُ بِاِتِّخَاذِ اللَّبَنِ وَالْمَصْلِ فَيَكُونُ بَيْنَهُمَا."

(كتاب الاجارة، الباب الخامس عشر في بيان مايجوز من الاجارة، الفصل الثالث فى قفيز الطحان وماهو فى معناه، ج:4، ص:445، ط:مكتبه رشيديه) 

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتاویٰ ملاحظہ کیجیے:

جانور کو آدھ پر دینا

جانور کو آدھ آدھ پر دینا نیز اس معاملہ میں اور مضاربت میں فرق

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144206200366

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں