بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جانور کو آدھ پر دینا


سوال

کیا جانوروں کو آدھ  پر دینا جائز ہے، اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اگر دو بچے  پیدا ہوئے تو ایک مالک کا اور ایک دیکھ  بھال کرنے والے شخص کا، اور اگر ایک بچہ پیدا ہوا تو پہلے سے طے شدہ انداز میں معاہدین  میں سے ایک مرتبہ ایک فریق وصول کرے گا اور دوسری مرتبہ پیدا ہونے والا دوسرا فریق کا ہوگا ؟

جواب

جانوروں کو شرکت پر دینے کی مذکورہ صورت درست نہیں ہے، ایسی صورت میں دودھ اور بچے دونوں مالک کے ہوں گے، اور پالنے والے کو اجرت دی جائے گی، یعنی عام طورپر جانور کے چارہ وغیرہ کے علاوہ جانور پالنے اور رکھنے کی جواجرت بنتی ہے، پالنے والااس اجرت کا مستحق ہوگا۔

اس کے متبادل جواز کی ممکنہ صورتیں درج ذیل ہیں:

1-   ایک صورت تو  یہی ہے کہ کرایہ پر پالنے کے لیے دے دے، اور پالنے والے کی اجرت طے کرلے، اس صورت میں دودھ، بچے وغیرہ سب مالک کے ہوں گے۔

2۔۔ زید (مثلاً)  اپنے پیسوں سے جانور خریدے اور پھر عمرو (مثلًا) کے ہاتھ اس کا آدھا حصہ  آدھی قیمت پر بیچ دے ،پھر زید عمرو کو وہ پیسے معاف کردے،تو  دونوں کے درمیان  وہ جانور مشترک ہوجائے گا،  اس جانورسے  جو بچے   پیدا ہوجائیں،  ہر ہر بچے میں زیداور عمرو برابر شریک ہوں گے اور اس طرح اس جانورکے دودھ  میں بھی دونوں برابر شریک ہوں گے۔ اس صورت میں زید کے لیے عمرو کے حصے کی قیمت معاف کرنا بھی ضروری نہیں ہے، اگر دوسرے شریک (عمرو) کے پاس فی الوقت پیسے نہ ہوں، تو اس کے حصے کی رقم ادھار کرلی جائے، اور جیسے اس کی گنجائش ہو وہ ادا کرتا رہے۔

3۔۔  زید اور عمرو   دونوں پیسے ملا کرجانور خریدیں، اس میں ہر ایک اپنی مالیت کے بقدر شریک ہوگا، اوراسی طرح  مالیت کے تناسب سے دونوں اس کے دودھ ، اور ہر ہر بچے میں بھی  شریک ہوں گے، البتہ اس صورت میں اس طرح طے کرنا کہ پہلا بچہ ایک کا ہوگا اور دوسرا بچہ دوسرے کا ہوگا یہ شرعاً غلط ہے، دونوں ہر ہر بچے میں اپنے اپنے حصے کے بقدر شریک ہوں گے ۔

واضح رہے کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ابتلاءِ شدید  کی صورت میں سوال  میں ذکر کردہ معاملہ میں جواز  کی گنجائش کا قول اختیار کیا ہے۔ (امداد الفتاوی۔3/342) لہذا اگر کسی علاقے میں ابتلاءِ عام کی صورت میں  کسی نے یہ معاملہ کرلیا ہو تو  اس کو ناجائز نہیں کہا جائے گا، البتہ ابتداءً ایسا معاملہ نہیں کیا جائے۔

خلاصۃ الفتاوی ہے :

"رجل دفع بقرةً إلى رجل بالعلف مناصفةً، وهي التي تسمى بالفارسية "كاونيم سوو" بأن دفع على أن ما يحصل من اللبن والسمن بينهما نصفان، فهذا فاسد، والحادث كله لصاحب البقرة، والإجارة فاسدة". (خلاصة الفتاوی:۳/۱۱4۔کتاب الإجارة، الجنس الثالث في الدواب ... ومایتصل بها، ط/قدیمی)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وَلَا خِلَافَ في شَرِكَةِ الْمِلْكِ أَنَّ الزِّيَادَةَ فيها تَكُونُ على قَدْرِ الْمَالِ حتى لو شَرَطَ الشَّرِيكَانِ في مِلْكِ مَاشِيَةٍ لِأَحَدِهِمَا فَضْلًا من أَوْلَادِهَا وَأَلْبَانِهَا لم تَجُزْ بِالْإِجْمَاعِ". (6/6۲۔کتاب الشرکة، فَصْلٌ وَأَمَّا بَيَانُ شَرَائِطِ جَوَازِ هذه الْأَنْوَاعِ۔ ط/سعید)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"دفع بقرةً إلى رجل على أن يعلفها وما يكون من اللبن والسمن بينهما أنصافًا فالإجارة فاسدة ... والحيلة في جوازه أن يبيع نصف البقرة منه بثمن ويبرئه عنه، ثم يأمر باتخاذ اللبن والمصل فيكون بينهما". (4/۵۰4، کتاب الإجارة، الفصل الثالث في قفيز الطحان وما هو في معناه، ط/رشیديه)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"بِخِلَافِ الزَّوَائِدِ فَإِنَّهَا تَتَوَلَّدُ مِنْ الْمِلْكِ فَإِنَّمَا تَتَوَلَّدُ بِقَدْرِ الْمِلْكِ". (المبسوط للسرخسي:۱۵/6، کتاب القسمة،  الناشر:دار المعرفة – بيروت ۔تاريخ النشر: 1414هـ = 1993م)  فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144111200927

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں