بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میاں بیوی کا الٹا لیٹ کر سونے کا حکم


سوال

 کیا شوہر اوربیوی الٹا لیٹ کرسو سکتے ہیں ؟

حلال اور حرام نکاح والی حدیث کی وضاحت کر دیں ۔

جواب

1:واضح رہے کہ سونے کے لیے لیٹنے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ دائیں کروٹ پر دایاں ہاتھ رخسار کے نیچے رکھ کر قبلہ کی طرف منہ کر کے سوئے۔ اگر مکمل وقت اسی کیفیت سے سونا مشکل ہو توکم از کم سونے کے لیے لیٹتے وقت اس ہیئت پر لیٹ جائے۔ بصورتِ دیگر سیدھا لیٹنے میں بھی حرج نہیں۔ البتہ پیٹ  کے بل اُلٹا لیٹ کر سونا ناپسندیدہ اور ممنوع ہے،یہ دوزخیوں کےلیٹنے اور شیطان کے سونے کا طریقہ ہے،اور ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو پیٹ کے بل الٹا لیٹے دیکھا تو فرمایا : ایسے (پیٹ کے بل الٹا ) لیٹنا اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے۔لہذا صورتِ مسئولہ میں میاں بیوی کا بلاعذر الٹا لیٹ کر سونے سے احتراز کرنا چاہیے کیوں کہ یہ شرعاً  ممنوع ہے، صورتاً  قبیح ہے ، اور طبی لحاظ سے صحت کے لیے بھی مضر اور نقصان دہ ہے۔

سنن ترمذی میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا مضطجعا على بطنه فقال: «إن هذه ‌ضجعة ‌لا يحبها الله»."

(ابواب الادب ،‌‌باب ما جاء في كراهية الاضطجاع على البطن، رقم الحديث:2768، ج:5، ص:97، ط:مكتبة و مطبعة مصطفي البابي)

ترجمہ:  "حضرت ابوہریرہ  ؓ  کہتے ہیں کہ ایک دن رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو اوندھا یعنی پیٹ کے بل لیٹے ہوئے دیکھا تو آپ نے اس سے فرمایا کہ اس طرح سے لیٹنا اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ ہے۔"

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عن أبي ذر قال: مر بي النبي صلى الله عليه وسلم وأنا مضطجع على بطني، فركضني برجله وقال: «يا جنيدب، إنما هذه ‌ضجعة ‌أهل ‌النار»."

(كتاب الادب ، باب النهي عن الاضطجاع على الوجه، رقم الحديث:3724، ج:2، ص:1227، ط:دارالكتب العلمية)

 ترجمہ: " اور حضرت ابوذر  ؓ  کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے جب کہ میں اپنے پیٹ کے بل یعنی اوندھا لیٹا ہوا تھا آپ نے یہ دیکھ کر اپنے پاؤں سے مجھے متوجہ کیا اور فرمایا: جندب! (حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کا نام ہے) تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس طرح لیٹنا دوزخیوں کا طر یقہ ہے۔"

مرقاۃالمفاتیح میں ہے:

"(لا يحبها الله) : لأن وضع الصدر والوجه اللذين من أشرف الأعضاء على الأرض إذلال في غير السجود، أو هذه الضجعة رقدة اللواطة، فالتشبيه بهم مذموم، وسيأتي في الحديث أنها ضجعة يبغضها الله، وفي حديث إنما هي ‌ضجعة ‌أهل ‌النار. (رواه الترمذي)."

(كتاب الاداب، باب الجلوس والنوم والمشي، رقم الحديث:4718، :7، ص:2980، ط:دارالفكر)

1:مذکورہ سوال غیرواضح ہے، متعلقہ حدیث یا اس کے مفہوم کے ساتھ یہ دوسراسوال دوبارہ ارسال کردیں۔

اور اگر مراد یہ پوچھنا ہے کہ کن عورتوں سے نکاح حلال ہے اور کن عورتوں سے حرام؟تو اس بابت درج ذیل لنک پر موجود تفصیل ملاحظہ کرلی جائے۔

کن عورتوں سے نکاح حلال ہے؟

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100073

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں