بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کن عورتوں سے نكاح حلال ہے اور کن سے نہیں؟ اہل کتاب عورتوں سے نکاح کی شرائط


سوال

1:کن عورتوں سے شادی حلال ہے اور کن سے نہیں؟

2:جیسا کہ یہودی یا عیسائی عورتیں سے شادی جائز ہے  یا نہیں؟اور اس میں ذمی اور حربی کا کیا تعلق ہے؟

جواب

1:جن عورتوں سے نکاح جائز نہیں انہیں 'محرَّمات' کہا جاتا ہے، اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے محرماتِ نکاح کی مکمل فہرست بیان کی ہے۔

سورہ نساء میں ارشاد ہے:

"حُرِّمَتْ عَلَیْكُمْ اُمَّهٰتُكُمْ وَ بَنٰتُكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ وَ عَمّٰتُكُمْ وَ خٰلٰتُكُمْ وَ بَنٰتُ الْاَخِ وَ بَنٰتُ الْاُخْتِ وَ اُمَّهٰتُكُمُ الّٰتِیْۤ اَرْضَعْنَكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَ اُمَّهٰتُ نِسَآئِكُمْ وَ رَبَآئِبُكُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِكُمْ مِّنْ نِّسَآئِكُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَاِنْ لَّمْ تَكُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ وَ حَلَآئِلُ اَبْنَآئِكُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِكُمْ وَ اَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاۙ  23

وَّ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ كِتٰبَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ مِنْهُنَّ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ فَرِیْضَةً وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْمَا تَرٰضَیْتُمْ بِهٖ مِنْۢ بَعْدِ الْفَرِیْضَةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا  24."

ترجمہ:23:"تم پر حرام کی گئیں تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں، اور تمہاری بہنیں ،  اور تمہاری پھوپھیاں ، اور تمہاری خالائیں ، اور بھتیجیاں اور بھانجیاں ،اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہے (یعنی انا) اور تمہاری وہ بہنیں جو دودھ پینے کی وجہ سے ہیں ، اور تمہاری بیبیوں کی مائیں، اور تمہاری بیٹیوں کی بیٹیاں ، جو کہ تمہاری پرورش میں رہتی ہیں ان بیبیوں سے کہ جن کے ساتھ تم نے صحبت کی ہو ،اور اگر تم نے ان بیبیوں سے صحبت نہ کی ہو تو تم کو کوئی گناہ نہیں اور تمہارے ان بیٹوں کی بیبیاں جو کہ تمہاری نسل سے ہوں ، اور یہ کہ تم دو بہنوں کو (رضاعی ہوں یا نسبی) ایک ساتھ رکھو لیکن جو پہلے ہوچکا۔ بیشک اللہ تعالیٰ بڑے بخشنے والے بڑے رحمت والے ہیں۔

24:اور وہ عورتیں جو کہ شوہر والیاں ہیں مگر جو کہ تمہاری مملوک ہوجاویں اللہ تعالیٰ نے ان احکام کو تم پر فرض کردیا ہے ، اور ان (عورتوں) کے سوا ( اور عورتیں) تمہارے لئے حلال کی گئیں ہیں (یعنی یہ) کہ تم ان کو اپنے مالوں کے ذریعہ سے چاہو ، اس طرح سے کہ تم بیوی بناؤ صرف مستی ہی نکالنا نہ ہو ، پھر جس طریق سے تم ان عورتوں سے منتفع ہوئے ہو سو ان کو ان کے مہر دو جو کچھ مقرر ہوچکے ہیں اور مقرر ہوئے بعد بھی جس پر تم باہم رضامند ہوجاو ٴاس میں تم پر کوئی گناہ نہیں بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑے جاننے والے ہیں بڑے حکمت والے ہیں۔"(بیان القرآن)

مذکورہ دونوں آیات میں جو محرماتِ نکاح بیان کی گئی ہیں وہ چار طرح کی عورتیں ہیں:

محرماتِ نسب: (یعنی وہ عورتیں جن سے نسبی تعلق کی وجہ سے نکاح کرناحرام ہے):

1:ماں(چاہے حقیقی ماں ہو یا سوتیلی، اس طرح نانی اور دادی)

2:بیٹی (پوتی اور نواسی بھی)

3:بہن (چاہے حقیقی ہو، یا سوتیلی یعنی  ماں شریک، یا باپ شریک ہو)

4:پھوپھی (والد کی بہن، چاہے  سگی ہو یا سوتیلی)

5:خالہ (ماں کی بہن چاہے سگی ہو یا سوتیلی)

6:بھتیجی (بھائی کی بیٹی چاہے سگی ہویا سوتیلی)

7:بھانجی (بہن کی بیٹی چاہے سگی ہو یا سوتیلی)

محرماتِ رضاعت: ( یعنی وہ عورتیں جن سے دودھ پینے کی  وجہ سے نکاح حرام ہے):

وہ تمام عورتیں جو نسبی تعلق کی وجہ سے محرمات میں سے ہیں، وہ دودھ پینے (رضاعت) کی وجہ سے بھی محرم بن جاتی ہیں ( شرط یہ ہے کہ دودھ ڈھائی سال کی عمر سے پہلے پلایا  گیا ہو)۔

لہٰذا8:رضاعی ماں، 9:رضاعی بہن،10: رضاعی پھوپھی،11: رضاعی خالہ، 12:رضاعی بھتیجی اور13: رضاعی بھانجی سے نکاح نہیں ہو سکتا۔

حرمتِ مصاہرت: (یعنی وہ عورتیں جن سے سسرالی رشتے کی وجہ سے نکاح حرام ہے):

14:بیوی کی ماں (ساس)

15:بیوی کی پہلے شوہر سے بیٹی ( لیکن اس شرط کے ساتھ بیوی سے صحبت کر چکا ہو، اگر صحبت سے پہلے ہی جدائیگی ہو جائے تو اس عورت کی بیٹی سے نکاح جائز ہے۔)

16:بیٹے کی بیوی (بہو)

جمع بین المحارم(یعنی دو محرم عورتوں کو ایک ساتھ نکاح میں رکھنا درست نہیں):

17: دو بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں رکھنا ناجائز ہے۔ اسی طرح پھوپھی اور اس کی بھتیجی، اور خالہ اور اس کی بھانجی کو ایک ساتھ نکاح میں رکھنا درست نہیں ہے۔

نوٹ: مذکورہ بالا محرمات کے علاوہ اور بھی کئی ایسی عورتیں ہیں جن سے نکاح حرام ہوتا ہے یا تو ابدی اور دائمی حرمت کے ساتھ یا پھر عارضی حرمت کے ساتھ(جیسے بیوی کے انتقال یا طلاق کے بعد بیوی کی بہن (سالی)، اسکی خالہ، اسکی بھانجی، اسکی پھوپھی یا اسکی بھتیجی سے نکاح کیا جاسکتا ہے)، لہٰذا نکاح سے پہلے کسی قابل اعتماد مفتی سے اس حوالے سے  تفصیلات لے لینی چاہییں۔

2:واضح رہے کہ  کسی مسلمان مرد کا غیر مسلم عورت (چاہے ذمیہ ہو یا غیر ذمیہ)  سے نکاح کرنے کی چند صورتیں ہیں:

1۔ اگر وہ غیر مسلم عورت کسی آسمانی دین کی ماننے والی نہیں، بلکہ دہریہ / مشرکہ  ہے تو اس سے نکاح کرنا سرے سے  جائزنہیں ہے۔

2۔ اگر وہ غیر مسلم عورت مسلمان ہوجائے  تو اس سے نکاح کرنا بلاشبہ جائز ہے۔

3۔اگر وہ غیر مسلم عورت واقعۃً اہلِ کتاب (یعنی عیسائی یا یہودی مذہب کی پیروکار) ہو، آسمانی کتاب انجیل اور توریت کو مانتی ہو   تو اس سے نکاح کرناشرعاً جائز تو ہے لیکن مکروہ ہے، کیوں کہ موجودہ زمانے میں ان کے ساتھ ازدواجی تعلق کی صورت میں اپنے یا اپنے بچوں کے دین اوران کی  اسلامی روایات کو بچانا مشکل ہے۔ پھر اس میں یہ تفصیل یہ ہے کہ:

(i)  وہ  صرف نام کی عیسائی/یہودی اور درحقیقت لامذہب دہریہ نہ ہو،بلکہ اپنے مذہبی اصول کوکم ازکم مانتی ہو، اگرچہ عمل میں خلاف بھی کرتی ہو، یعنی اپنے نبی پر ایمان رکھتی ہو اور اس پر نازل ہونے والی کتاب پر بھی ایمان رکھتی ہو، اگرچہ وہ توحید کی قائل نہ ہو۔

(ii)  وہ شروع سے ہی یہودیہ نصرانیہ ہو، اسلام سے مرتدہوکر یہودیت یا نصرانیت اختیار نہ کی ہو۔ 

(iii)مسلمان مرد کو کتابیہ عورت کے ساتھ  اس شرط کے ساتھ نکاح کی اجازت ہے کہ وہ مسلمان مرد اسلام کی قوی اور روشن حجتوں اور مضبوط دلائل  کے ذریعہ کتابیہ عورت اور اس کے خاندان کے لوگوں کو اسلام کی طرف مائل کرسکے،اگریہ اندیشہ ہوکہ کتابیہ عورت سے نکاح کے بعد خود مسلمان مرد اپنے ایمان کو قربان کربیٹھے گا توپھرمسلمان مرد کو کتابیہ سے نکاح کی اجازت نہ ہوگی۔

معارف القرآن (کاندھلوی) میں ہے:

"غرض یہ کہ کتاب وسنت نے مشرکین اور اہل کتاب میں فرق کیا ہے کہ مشرکین اور مشرکات کے ساتھ تو نکاح کو بالکلیہ ممنوع قرار دیا اور اہل کتاب کے بارے میں یہ حکم کہ مسلمان مرد کو تو کتابیہ عورت سے اس شرط کے ساتھ نکاح کی اجازت ہے کہ وہ مسلمان مرد اسلام کی قوی اور روشن حجتوں کے ذریعہ کتابیہ کو اور اس کے خاندان کے لوگوں کو سلام کی طرف کھینچ سکے اور اگر یہ اندیشہ ہو کہ کتابیہ سے نکاح کرکے بعد یہی خود اس کے حسن و جمال یا مال ومنال کی وجہ سے اس کے ہاتھ بک جائے گا اور اپنی متاع ایمانی کو نصرانیت پر قربان کردے گا تو پھر کتابیہ کے ساتھ نکاح جائز نہ ہوگا قرآن اور حدیث میں مومنات صالحات اور دین دار عورتوں سے نکاح کرنے کی ترغیب اور فاسقات اور فاجرات سے نکاح کی ممانعت آئی ہے اگرچہ وہ مسلمان ہوں س لیے کہ بددین عورت کے ساتھ نکاح کرنے سے اس کے بھی خراب ہونے کا اندیشہ ہے تو نصرانیہ یہودیہ میں تو یہ اندیشہ اور قوی ہوجاتا ہے۔"

(سورۃ المائدۃ، آیت نمبر:5، ج:2، ص:447، ط:مکتبۃ المعارف)

لہٰذا  اگرتحقیق سے کسی عورت کااہل کتاب ہونا ثابت ہوجائے اور اس میں مذکورہ شرئط پائی جا رہی ہوں  تو اس سے اگرچہ نکاح جائزہے، تاہم چندمفاسد کی وجہ سے مکروہ ہے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اپنے دورمبارک میں اس پرسخت ناراضی کااظہارفرمایاتھا، اور اگر وہ اہل کتاب عورت ذمیہ ہو تو اس سے نکاح کو فقہاء نے مکروہ تنزیہی قرار دیا ہے، اور  اگر وہ حربیہ ہو تو اس سے  نکاح مکروہ تحریمی ہے۔ 

کتاب الآثار للشیبانی میں ہے:

"محمد قال: أخبرنا أبو حنيفة، عن حماد، عن إبراهيم، عن حذيفة بن اليمان ، أنه تزوج يهودية بالمدائن فكتب إليه عمر بن الخطاب : أن خل سبيلها، فكتب إليه: أحرام هي يا أمير المؤمنين؟ فكتب إليه : أعزم عليك أن لا تضع كتابي حتى تخلي سبيلها، فإني أخاف أن يقتدي بك المسلمون فيختاروا نساء أهل الذمة لجمالهن، وكفى بذلك فتنة لنساء المسلمين.
قال محمد: وبه نأخذ لا نراه حراماً، ولكنّا نرى أن يختار عليهن نساء المسلمين، وهو قول أبي حنيفة رحمه الله تعالى."

)باب من تزوج اليهودية أو النصرانية أنها لا تحصن الرجل، ج:1، ص:394-395، ط:دار النوادر)

"ترجمہ:حضرت حذیفہ ؓ نے مدائن میں ایک یہودی عورت سے نکاح کرلیا تھا حضرت عمر ؓ کو خبر ملی تو انہوں نے خط لکھا کہ اس کو چھوڑ دو ۔ حضرت حذیفہ ؓ کو خط ملا تو انہوں نے حضرت عمر کو لکھا کہ اے امیر المومنین ! کیا یہودیہ سے نکاح کرنا حرام ہے حضرت عمر ؓ نے جواب میں تحریر فرمایا کہ میں تمہیں مضبوطی کے ساتھ پختہ طور پر یہ حکم دیتا ہوں کہ میرا خط پڑھ کر اس وقت تک نیچے نہ رکھنا جب تک کہ تم اس عورت کو چھوڑ نہ دو کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ دوسرے مسلمان بھی تمہارا اقتداء کرلیں گے اور اس طرح سے ذمی عورتوں سے نکاح کرنے کو ترجیح دیں گے کیونکہ ان میں حسن و جمال ہے اور مسلمان عورتوں کو چھوڑ دیں گے اور یہ مسلمان عورتوں کے لئے ایک بہت بڑا فتنہ ہوگا۔ روایت ختم کرنے کے بعد امام محمد لکھتے ہیں :حضرت عمر ؓ نے جو فرمایا ہمارا بھی وہی مذہب ہے ہم اس کو حرام تو نہیں قرار دیتے لیکن اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ مسلمان عورتوں سے نکاح کیا جائے اور انہیں یہوی اور نصرانی عورتوں پر ترجیح دی جائے اور امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ کا بھی یہی قول ہے ۔" 

نوٹ:ذمیہ وہ ہے جو اسلامی حکومت میں مسلمان بادشاہ کی رعیت بن کر رہے، حربیہ وہ ہے جو ایسی نہ ہو۔(فتاوی محمودیہ، ج:2، ص:314، ط:دار الفتاء، جامعہ فاروقیہ)

فتح القدیر میں ہے:

"وانتفاء محلية المرأة للنكاح شرعا بأسباب: الأول النسب، فيحرم على الإنسان فروعه وهم بناته وبنات أولاده وإن سفلن وأصوله وهم أمهاته وأمهات أمهاته وآبائه وإن علون، وفروع أبويه وإن نزلن، فتحرم بنات الإخوة والأخوات وبنات أولاد الإخوة والأخوات وإن نزلن، وفروع أجداده وجداته لبطن واحد، فلهذا تحرم العمات والخالات، وتحل بنات العمات والأعمام والخالات والأخوال. الثاني المصاهرة، يحرم بها فروع نسائه المدخول بهن وإن نزلن، وأمهات الزوجات وجداتهن بعقد صحيح وإن علون وإن لم يدخل بالزوجات، وتحرم موطوءات آبائه وأجداده وإن علوا ولو بزنا والمعقودات لهم عليهن بعقد صحيح، وتحرم موطوءات أبنائه وأبناء أولاده وإن سفلوا ولو بزنا، والمعقودات لهم عليهن بعقد صحيح. الثالث الرضاع، يحرم كالنسب، وسيأتي تفصيله في كتاب الرضاع إن شاء الله تعالى. الرابع الجمع بين المحارم والأجنبيات كالأمة مع الحرة السابقة عليها. الخامس حق الغير، كالمنكوحة والمعتدة والحامل بثابت النسب . السادس عدم الدين السماوي كالمجوسية والمشركة. السابع: التنافي كنكاح السيد أمته والسيدة عبدها."

(كتاب النكاح، فصل في بيان المحرمات، ج:3، ص:208، ط:دار الفكر)

رد المحتار میں ہے:

"(وصح نكاح كتابية) ، وإن كره تنزيها (مؤمنة بنبي) مرسل (مقرة بكتاب) منزل، وإن اعتقدوا المسيح إلها، وكذا حل ذبيحتهم على المذهب بحر.

(قوله: كتابية) أطلقه فشمل ‌الحربية والذمية والحرة والأمة ح عن البحر (قوله: وإن كره تنزيها) أي سواء كانت ذمية أو حربية، فإن صاحب البحر استظهر أن الكراهة في الكتابية ‌الحربية تنزيهية فالذمية أولى. اهـ.

ح قلت: علل ذلك في البحر بأن التحريمية لا بد لها من نهي أو ما في معناه؛ لأنها في رتبة الواجب. اهـ. وفيه أن إطلاقهم الكراهة في ‌الحربية يفيد أنها تحريمية، والدليل عند المجتهد على أن التعليل يفيد ذلك، ففي الفتح ويجوز تزوج الكتابيات والأولى أن لا يفعل، ولا يأكل ذبيحتهم إلا للضرورة، وتكره الكتابية ‌الحربية إجماعا؛ لافتتاح باب الفتنة من إمكان التعلق المستدعي للمقام معها في دار الحرب، وتعريض الولد على التخلق بأخلاق أهل الكفر، وعلى الرق بأن تسبى وهي حبلى فيولد رقيقا، وإن كان مسلما. اهـ.

فقوله: والأولى أن لا يفعل يفيد كراهة التنزيه في غير ‌الحربية، وما بعده يفيد كراهة التحريم في ‌الحربية تأمل. (قوله: مؤمنة بنبي) تفسير للكتابية لا تقييد ط (قوله: مقرة بكتاب) في النهر عن الزيلعي: واعلم أن من اعتقد دينا سماويا وله كتاب منزل كصحف إبراهيم وشيث وزبور داود فهو من أهل الكتاب فتجوز مناكحتهم وأكل ذبائحهم (قوله: على المذهب) أي خلافا لما في المستصفى من تقييد الحل بأن لا يعتقدوا ذلك ويوافقه ما في مبسوط شيخ الإسلام يجب أن لا يأكلوا ذبائح أهل الكتاب إذا اعتقدوا أن المسيح إله، وأن عزيرا إله، ولا يتزوجوا نساءهم قيل وعليه الفتوى، ولكن بالنظر إلى الدليل ينبغي أنه يجوز الأكل والتزوج. اهـ."

(كتاب النكاح، فصل في المحرمات، ج:3، ص:45، ط:ايچ ايم سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144311100096

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں