ایک امام صاحب نے جمعہ کے بیان میں کہا کہ جب کوئی شخص مرجائے توپہلادن سے لے کر ساتویں دن تک کچھ صدقات وخیرات کرناچاہیے چوں کہ ان سات دنوں میں اس مردے کے حساب وکتاب ہوتاہے تاکہ آسانی ہوجائے، کیا امام صاحب کی بات درست ہے؟
واضح رہے کہ میت کے لیےدعا اور استغفار کرنا اور صدقہ وخیرات دینا اور بلااجرت قرآن کریم پڑھ کر ایصالِ ثواب کرنا ، اسی طرح نفلی نماز وروزہ اور حج وغیرہ سے میت کو ثواب پہنچانا جائز اور صحیح ہے، لیکن ایصالِ ثواب کے لیے شریعت حقہ نے دنوں اور تاریخوں کی کوئی تعیین وتخصیص نہیں کی ہے، اور اپنی طرف سے کسی بھی قسم کی تعیین کرنا بدعت ہے ،لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ امام مسجد نے اگر واقعۃً میت کے لیے صدقات و خیرات کرنےکے حوالہ سے سات دنوں کی تعیین کی ہے،تو یہ تعیین شرعاًثابت نہیں ہے لہذا یہ کہنا درست نہیں ہے۔
"فتاوی شامی" میں ہے:
" وفي البزازية: ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلى القبر في المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص. والحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراءة القرآن لأجل الأكل يكره. وفيها من كتاب الإستحسان: وإن اتخذ طعاما للفقراء كان حسنا اهـ وأطال في ذلك في المعراج. وقال: وهذه الأفعال كلها للسمعة والرياء فيحترز عنها لأنهم لا يريدون بها وجه الله تعالى."
(كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، ج:2، ص:240-241، ط:سعيد)
"ہدایہ " میں ہے:
"الأصل في هذا الباب أن الإنسان له أن يجعل ثواب عمله لغيره صلاة أو صوما أو صدقة أو غيرها عند أهل السنة والجماعة، لما روي «عن النبي - عليه الصلاة والسلام - أنه ضحى بكبشين أملحين أحدهما عن نفسه والآخر عن أمته ممن أقر بوحدانية الله تعالى وشهد له بالبلاغ» جعل تضحية إحدى الشاتين لأمته."
(كتاب الحج، باب الحج عن الغير، ج:1، ص:178، ط:دار إحياء التراث العربي)
فقط والله أعلم
اس حوالہ سے مزید تفصیل کے لیے جامعہ کی ویب سائٹ پر موجود مذکورہ فتاوی ملاحظہ ہو:
فتوی نمبر : 144407102286
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن