بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میت ہونے کے بعد گھر پر مسلسل سات دنوں تک ایصال ثواب کے لیے لوگوں کو بلانا / ایصال ثواب کا مسنون طریقہ


سوال

1: کسی مسلمان مرد و عورت کے انتقال کے بعدایصال ثواب کے لیے عزیز واقارب اور مولوی حضرات کوگھر پرمسلسل سات دن بلا کر کھانا کھلا کربخشش کی دعائیں کروانا اور چالیسویں اور بارھویں کے موقعے پر خیر خیرات کرنا اسلامی تعلیمات وسنت سے ثابت ہے یا محض رسومات ہیں ؟ وضاحت سے جواب دیں ۔

2: نیز میت کے ایصال ثواب کیلئے مسنون طریقہ بھی بتادیں۔ 

جواب

1: واضح رہے کہ میت کے لیےدعا اور استغفار کرنا اور صدقہ وخیرات دینا اور بلااجرت  قرآن کریم پڑھ کر ایصالِ ثواب کرنا ، اسی طرح نفلی نماز وروزہ اور حج وغیرہ سے میت کو ثواب پہنچانا جائز اور صحیح ہے، لیکن ایصالِ ثواب کے لیے شریعت حقہ نے دنوں اور تاریخوں کی کوئی تعیین وتخصیص نہیں کی ہے، اور اپنی طرف سے ایسی تعیین کرنا بدعت ہے ،  نیز جب کسی کی وفات ہو جائے تو چوں کہ اس کے گھر والے صدمہ میں مبتلا ہوتے ہیں اس لیے اس حوالے سے شریعت کی تعلیمات یہ ہیں کہ اہلِ محلہ اور رشتہ دار اہلِ میت کا کھانا تیار کریں نہ کہ اس کے بر عکس وہ میت کے گھر جمع ہوں اور اہل میت ان کے کھانے وغیرہ کے انتظام میں پریشان ہوں، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین  کے نزدیک میت کے گھر اجتماع کرنا اور وہاں کھانا تناول کرنا نوحہ جیسا ایک جرم تھا اور اس پر ان کا اجماع اور اتفاق تھا ، چناں چہ حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :

"عن جرير بن عبد الله البجلي، قال: كنا نرى الاجتماع إلى أهل الميت وصنعة الطعام، من النياحة."

(سنن ابن ماجة، أبواب الجنائز ، باب ما جاء في النهي عن الاجتماع إلى أهل الميت وصنعة الطعام، ج:2، ص:538، ط:دار الرسالة العالمية)

ترجمہ: " ہم (یعنی حضرات صحابۂ کرام ) میت کے گھر جمع ہونے کو اور میت کے گھرکھانا تیار کرنے کو نوحہ سمجھتے تھے"

اس کے تحت علامہ ابو الحسن السندیؒ لکھتے ہیں:

" قوله: (كنا نرى) هذا بمنزلة رواية إجماع الصحابة رضي الله عنهم أو تقرير النبي ـ صلى الله عليه وسلم ـ وعلى الثاني فحكمة الرفع على التقديرين فهو حجة (وصنعة) أي الأهل وإفراد الضمير لإفراد لفظ الأهل وبالجملة فهذا عكس الوارد إذ الوارد أن يصنع الناس الطعام لأهل الميت فاجتماع الناس في بيتهم حتى يتكلفوا لأجلهم الطعام قلب لذلك وقد ذكر كثير من الفقهاء أن الضيافة لأهل الميت قلب للمعقول لأن الضيافة حقا أن تكون للسرور لا للحزن وفي الزوائد إسناده صحيح رجال الطريق الأول على شرط البخاري والثاني على شرط مسلم والله أعلم."

(كتاب الجنائز، باب ما جاء في النهي عن الاجتماع إلى أهل الميت وصنعة الطعام، ج:1، ص:490، ط:  دار الجيل)

اور نوحہ کرنا جمہور علماء کرام کے نزدیک حرام ہے۔

  شرح النووی علی صحیح مسلم میں ہے:

"كذا قوله صلى الله عليه وسلم النائحة إذا لم تتب قبل موتها إلى آخره ،  فيه دليل على تحريم النياحة وهو مجمع عليه."

(كتاب الجنائز، ج:6، ص:236، ط: دار إحياء التراث العربي)

لہٰذا کسی مسلمان مرد یا عورت کے انتقال کے بعد ایصالِ ثواب کے لیے عزیز و اقارب اور مولوی حضرات کو گھر پر مسلسل سات دنوں تک بلا کر بخشش کی دعا کرواکر  کھانا کھلانا درست نہیں ہے،  نیز میت کی وفات کی  بارہویں  اور چالیسویں کے موقعے پر خیرات کرنا ، اور اس دن کو متعین کر لینا  شریعت کی تعلیمات کے خلاف  اور بدعت ہیں ، جس کو فی الفور ترک کرنا لازم ہے۔

2:  ایصالِ ثواب کا کوئی خاص طریقہ شریعت میں متعین نہیں ہے ، نہ اس میں کسی دن کی قید ہے، نہ کسی خاص ذکر کی پابندی ہے اور نہ قرآنِ کریم کو ختم کرنا ضروری ہے،  بلکہ بلاتعیین جو نفلی عبادت بدنی و مالی بسہولت ہوسکے وہ کرنے کے بعد  اس کا ثواب میت کو پہنچایا جاسکتا ہے ، اہلِ سنت و الجماعت کے نزدیک یہ ثواب ان کو بلاشک و شبہ پہنچتا ہے۔ 

ایصالِ ثواب کا مختصر طریقہ یہ ہے کہ نفلی عمل کرنے کے بعد صرف یہ نیت کرلیں یعنی دل میں یہ کہہ دیں کہ "یااللہ اس عمل کا ثواب فلاں فلاں شخص تک پہنچا دیں"۔

"رد المحتار" میں ہے:

"قال في الفتح ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم يومهم وليلتهم، لقوله - صلى الله عليه وسلم - «اصنعوا لآل جعفر طعاما فقد جاءهم ما يشغلهم» حسنه الترمذي وصححه الحاكم ولأنه بر ومعروف، ويلح عليهم في الأكل لأن الحزن يمنعهم من ذلك فيضعفون. اهـ. مطلب في كراهة الضيافة من أهل الميت

وقال أيضا: ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة: وروى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال " كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة ". اهـ. وفي البزازية: ويكره ‌اتخاذ ‌الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلى القبر في المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص. والحاصل أن ‌اتخاذ ‌الطعام عند قراءة القرآن لأجل الأكل يكره. وفيها من كتاب الاستحسان: وإن اتخذ  طعاما للفقراء كان حسنا اهـ وأطال في ذلك في المعراج. وقال: وهذه الأفعال كلها للسمعة والرياء فيحترز عنها لأنهم لا يريدون بها وجه الله تعالى. اهـ. وبحث هنا في شرح المنية بمعارضة حديث جرير المار بحديث آخر فيه «أنه - عليه الصلاة والسلام - دعته امرأة رجل ميت لما رجع من دفنه فجاء وجيء بالطعام» . أقول: وفيه نظر، فإنه واقعة حال لا عموم لها مع احتمال سبب خاص، بخلاف ما في حديث جرير. على أنه بحث في المنقول في مذهبنا ومذهب غيرنا كالشافعية والحنابلة استدلالا بحديث جرير المذكور على الكراهة، ولا سيما إذا كان في الورثة صغار أو غائب، مع قطع النظر عما يحصل عند ذلك غالبا من المنكرات الكثيرة كإيقاد الشموع والقناديل التي توجد في الأفراح، وكدق الطبول، والغناء بالأصوات الحسان، واجتماع النساء والمردان، وأخذ الأجرة على الذكر وقراءة القرآن، وغير ذلك مما هو مشاهد في هذه الأزمان، وما كان كذلك فلا شك في حرمته وبطلان الوصية به، ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم."

(كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، ج:2، ص:240-241، ط:سعيد)

"الہدایۃ "  میں ہے:

"الأصل في هذا الباب أن الإنسان له أن يجعل ثواب عمله لغيره صلاة أو صوما أو صدقة أو غيرها عند أهل السنة والجماعة، لما روي «عن النبي - عليه الصلاة والسلام - أنه ضحى بكبشين أملحين أحدهما عن نفسه والآخر عن أمته ممن أقر بوحدانية الله تعالى وشهد له بالبلاغ» جعل تضحية إحدى الشاتين لأمته."

(كتاب الحج، باب الحج عن الغير، ج:1، ص:178، ط:دار إحياء التراث العربي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144404101734

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں