بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مماتی امام کے پیچھے نماز / مماتیوں کی مجالس میں شرکت کرنا


سوال

ہماری مسجد کے نمازی دیوبند عقائد کے لوگ ہیں اور میں مسجد  کی انتظامی کمیٹی کا رکن ہوں، ہمارے مولانا صاحب بھی دیوبند مسلک سے ہیں ،مسجد کے چند نمازیوں نے کچھ عرصہ قبل مولانا صاحب کے گاہے بگاہے بیانات میں سے اخذ کیا کہ  مولانا مماتی ہیں اور یزید کو رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں ،  جس پر ان کی مولانا کے ساتھ ایک مجلس ہوئی ، جس پر مولا نا نے قرآن پر ہاتھ  رکھ  کر ان دونوں باتوں کو رد کیا ،اب ایک بار پھر ان نمازیوں کی طرف سے اعتراض کیا جارہا ہے کہ مولانا انکار کے باوجود ایسی محفلوں میں نہ صرف جاتے ہیں، بلکہ ان کے ساتھ اسٹیج پر بھی براجمان ہوتے ہیں جن کا عقیدہ مماتی ہے، میرا سوال یہ ہے آیا مماتی بندہ کے  پیچھے ہماری نماز ہو جاتی ہے ؟ چند علماء  اس کو مکروہ  تحریمی گردانتے ہیں،دوسرا یہ کہ ایک بندہ قرآن پر حلف لے کر ایسی مجالس میں جائے تو اس کی بات پر اعتبار کر کے ہماری وہ نمازیں جو اس کے پیچھے پڑھیں ہیں ان کی شرعی کیا حیثیت ہے ؟

جواب

 واضح رہے کہ اہلِِ  سنت و الجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ رسولِ اکرم  ﷺ  اور  تمام  انبیاءِ کرام علیہم الصلوات و التسلیمات  وفات  کے بعد اپنی قبروں میں زندہ  ہیں، ان کو  روزی دی جاتی ہے، ان کے اَبدانِ مقدسہ بعینہا محفوظ ہیں اور   جسدِ عنصری  کے  ساتھ  عالمِ برزخ میں ان کو حیات حاصل ہے، اور  یہ حیات، حیاتِ دنیوی کے  مماثل، بلکہ بعض  وجوہ سے حیاتِ دنیوی سے زیادہ قوی تر ہے، البتہ اَحکامِ شرعیہ کے وہ مکلف نہیں ہیں،  روضہ اقدس میں جو درود پڑھا جاوے حضور  ﷺ اس کو خود بلا واسطہ سنتے ہیں۔

جو لوگ حیات النبیﷺ کا انکار کرتے ہیں ان کو  عرف میں"مماتی"   کہا جاتا ہے، اور یہ اہلِ سنت و الجماعت سے خارج ہیں؛ اس لیے  ان کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے، اگر کسی جگہ امام مماتی  (یعنی حیات الانبیاء علیہم السلام کا منکر) ہو تو اس کے پیچھے نماز پڑھنے کے بجائے کسی دوسری جگہ صحیح عقیدہ والے امام کے پیچھے نماز پڑھنی چاہیے، البتہ اگر وقت کی تنگی یا کسی عذر کی وجہ سے مماتی امام کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کی صورت میں جماعت کے چھوٹنے کا اندیشہ ہو تو پھر جماعت کی نماز چھوڑنے کے بجائے مجبورًا اسی امام کے پیچھے نماز پڑھ لینی چاہیے، جماعت ترک نہیں کرنی  چاہیے، چاہے دل لگتا ہو یا نہ لگتا ہو، اور جو نمازیں اب تک ادا کی گئی ہوں،  وہ بھی ادا ہوگئی ہیں، ان کو دُہرانے کی ضرورت نہیں ہے، البتہ ایک صحیح العقیدہ باشرع امام کی اقتدا میں نماز پڑھنے پر جتنا ثواب ملتا ہے،  وہ نہیں ملے گا۔

تاہم   صورتِ مسئولہ  میں جب مذکورہ امام صاحب نے قرآن پر حلف  لے کر اپنے مماتی ہونے کا انکار کردیا ہے تو ان کی بات کو معتبر سمجھاجائے گا اور  ان کے پیچھے نماز  پڑھنا  صحیح ہے ،پچھلی جو نمازیں پڑھی ہیں وہ بھی درست ہیں ،البتہ مذکورہ امام صاحب کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو مواقعِ تہمت سے بچائیں اور ایسے لوگوں کی  مجالس میں شرکت نہ کریں جو کہ اہلِ  سنت و الجماعت سے خارج ہیں۔

عقیدہ حیات النبی ﷺ سے متعلق تفصیلی فتویٰ درج ذیل لنک پر ملاحظہ کیجیے:

حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حیات انبیاء علیہم السلام سے متعلق اہل سنت والجماعت کا عقیدہ

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿ وَلَا تَرْكَنُوْآ اِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِيَآءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ﴾  [هود: 113]

 الزواجر عن اقتراف الکبائر میں ہے:

"قال مالك بن دینار:  أوحی الله إلی النبي من الأنبیاء أن قل لقومك: لایدخلوا مداخل أعدائي، و لایلبسوا ملابس أعدائي، و لایرکبوا مراکب أعدائي، و لایطعموا مطاعم أعدائي، فیکونوا أعدائي، کما هم  أعدائي."

(ابن حجر المكي الهيتمي،  1/15، مقدمہ، ط:  دارالمعرفۃ،   بیروت) 

فتاوی شامی میں ہے:

"(دعي إلى وليمة و ثمة لعب أو غناء قعد وأكل) لو المنكر في المنزل، فلو على المائدة لا ينبغي أن يقعد بل يخرج معرضًا لقوله تعالى: {فلا تقعد بعد الذكرى مع القوم الظالمين}  -[الأنعام: 68]- (فإن قدر على المنع فعل وإلا) يقدر (صبر إن لم يكن ممن يقتدى به فإن كان) مقتدى (ولم يقدر على المنع خرج ولم يقعد) لأن فيه شين الدين والمحكي عن الإمام كان قبل أن يصير مقتدى به."

(رد المحتار6 / 348ط:سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويكره) تنزيهاً (إمامة عبد ... وفاسق ... ومبتدع) أي صاحب بدعة، وهي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول لا بمعاندة بل بنوع شبهة، وكل من كان من قبلتنا (لا يكفر بها) حتى الخوارج الذين يستحلون دماءنا وأموالنا وسب الرسول، وينكرون صفاته تعالى وجواز رؤيته؛ لكونه عن تأويل وشبهة؛ بدليل قبول شهادتهم ... هذا إن وجد غيرهم وإلا فلا كراهة، بحر بحثاً. وفي النهر عن المحيط: صلى خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعة.

(قوله: نال فضل الجماعة) أفاد أن الصلاة خلفهما أولى من الانفراد، لكن لا ينال كما ينال خلف تقي ورع؛ لحديث: «من صلى خلف عالم تقي فكأنما صلى خلف نبي». قال في الحلية: ولم يجده المخرجون، نعم أخرج الحاكم في مستدركه مرفوعاً: «إن سركم أن يقبل الله صلاتكم فليؤمكم خياركم، فإنهم وفدكم فيما بينكم وبين ربكم»". 

(رد المحتار1/ 559ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201948

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں