بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مخطوبہ کو دیکھنے اور دکھانے کا حکم


سوال

مخطوبہ کو  دیکھنے کی  صورت  کیا ہے؟ رؤیت جائز ہے  یا إراءۃ؟

جواب

واضح رہے کہ مخطوبہ کو  تین باتوں کا  لحاظ رکھتے ہوئے  ایک نظر دیکھنا جائز ہے :

1۔ لڑکی کو دیکھنے  کی غرض محض  دیکھنے کی خواہش پوری کرنا نہ ہو، بلکہ نکاح کی سنت کی تکمیل مقصود ہو۔

2۔ ایک ہی مرتبہ دیکھ لیا جائے، باربار دیکھنا ، تنہائی میں  ملاقات اور  نکاح سے قبل روابط  کی شرعًا جائز نہیں ہے۔

3۔ لڑکی کو کسی محرم کی موجودگی میں دیکھا جائے۔

اور اگر اپنی کسی محرم خاتون کے ذریعے مخطوبہ (جس لڑکی سے نکاح کا ارادہ ہو) کے اوصاف معلوم ہوجائیں یا اس کے دیکھنے پر اکتفا کرلیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔لیکن اس کے لیے لڑکی کو بناؤ سنگھار کرکے   اہتمام کے ساتھ اپنی اصلی شکل کو چھپاکر دکھانا دھوکہ ہے جوکہ  شرعا ً جائز نہیں ،کیونکہ حدیث شریف  میں رؤیت کا  ذکر ہے نہ کہ اراءۃ کا اور رؤیت کا مطلب یہ ہے کہ  اگر لڑکا  چھپ چھپا کر دیکھ سکتا ہو تو اجازت ہے ،چھپ چھپا کر دیکھنے میں بھی یہ طریقہ اختیار کرے کہ کسی کو بد نظری کی بد گمانی نہ ہو ۔

حدیث  میں ہے :

"عن جابر بن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا خطب أحدكم المرأة، فإن استطاع أن ينظر إلى ما يدعوه إلى نكاحها فليفعل". ‌فخطبت جارية فكنت أتخبأ لها، حتى رأيت منها ما دعاني إلى نكاحها فتزوجتها."

(سنن أبي داود،كتاب النكاح،باب الرجل ينظر إلي المرأة وهو يريد تزويجها،ج:۳،ص:۴۲۴،دارالرسالۃ العالمیۃ)

المبسوط للسرخسی میں ہے :

"وكذلك إن كان أراد أن يتزوجها فلابأس بأن ينظر إليها وإن كان يعلم أنه يشتهيها لما روي «أن النبي صلى الله عليه وسلم قال للمغيرة بن شعبة: لما أراد أن يتزوج امرأة: أبصرها فإنه أحرى أن يؤدم بينكما» «وكان محمد بن أم سلمة يطالع بنية تحت إجار لها فقيل له: أتفعل ذلك وأنت صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إذا ألقى الله خطبة امرأة في قلب رجل أحل له النظر إليها» ولأن مقصوده إقامة السنة لا قضاء الشهوة، وإنما يعتبر ما هو المقصود لا ما يكون تبعًا."

(كتاب الاستحسان، النظر إلى الأجنبيات، ج:۱۰،ص:۱۵۵،دارالمعرفۃ)

اعلاءالسنن میں ہے :

"قال العبد الضعيف: و حجة الجمهور قول جابر رضي الله عنه:"فخطبت جاريةّ فكنت أتخبأ "والراوي أعرف بمعني ما رواه ،فدل علي أنه لا يجوز له أن يطلب من أوليائها أن يحضروها بين يديه لما في ذلك من الإستخفاف بهم، و لايجوز إرتكاب مثل ذلك لأمر مباح و لا أن ينظر إليها بحيث تطلع على رؤيته لها من غير إذنها؛ لأنّ المرأة تستحي من ذلك و يثقل نظر الأجنبي إليها على قلبها لما جبلها الله على الغيرة، و قد يفضي ذلك إلي مفاسد عظيمة كما لايخفي،و إنما يجوز له أن يتخبأ لها و ينظر إليها خفية، و مثل هذا النظر يقتصر على الوجه و الكف و القدم لايعدوها إلى مواضع اللحم و لا إلى جميع البدن."

(كتاب الحظر والاباحة،باب جواز النظر إلي المخطوبة،ج:۱۷،ص:۳۷۹،ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیۃ)

مزید دیکھیے:

جس لڑکی سے نکاح کا ارادہ ہو رشتے سے پہلے ایک نظر دیکھنا

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100489

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں