بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میک اَپ آرٹسٹ بننا شریعت کی نظر میں کیسا ہے؟


سوال

کیا میک اپ آرٹسٹ بننا صحیح ہے ؟

جواب

واضح رہےکہ شریعت میں عورت کے لیے شرعی حدود میں رہتے ہوئے تزئین وآرائش کی گنجائش ہے، بل کہ شوہر کے لیے اپنے آپ کو سنبھالنا اور مزین کرناباعثِ اجر ہے، اور اس میں کسی دوسری عورت سے مدد لینا بھی جائز ہے، بشرطیکہ شرعی حدود کا پورا لحاظ کیاجائے؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر کوئی عورت کسی دوسری عورت سے تزیین کے جائز طریقے سیکھنا چاہے، تو سیکھ سکتی ہے، لیکن جو چیزیں شرعاً ممنوع ہیں، مثلاً بھنویں تراشنا، جسم  گودنا، اور ڈیزائن کے لیےلمبے لمبے ناخن چھوڑناوغیرہ ،تو جیسے یہ سب چیزیں کرناممنوع ہے،ایسے ہی اس کا سیکھنا اور سکھانابھی ممنوع ہے۔

نیز واضح رہے کہ اگر مذکورہ ہنر سیکھنے لیےعورت کو گھر سے باہر جانے کی ضرورت پڑے، توپھرعورت کے لیے درج ذیل شرائظ کالحاظ رکھنا بھی ضروری ہے:

1- باپردہ ہوکر نکلے۔

2- تنہا نہ نکلے۔

3- ایسی جگہ  جائے جہاں کسی بھی اجنبی مرد کے ساتھ اختلاط  کی نوبت نہ آئے۔

4- جو کام  کرے یا  جو ہنر سیکھے،  شرعًا  وہ کام یا ہنر جائز ہو۔

مزید تفصیل کے لیےدرج ذیل  لنک ملاحظہ ہوں:

گرلز سنٹر اور بیوٹی پارلر میں کام سیکھنے کا حکم

و قال تعالٰی:

"وَ قَرْنَ فِى بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ ٱلْجٰهِلِيَّةِ ٱلْأُولَىٰ." (سورة الاحزاب :33)

روح المعانی ميں ہے :

"والمراد علي جمع القراءات أمرهن رضي اللہ تعالي عنھن بملازمة البیوت وهو أمر مطلوب من سائر النساء، وأخرج الترمذي والبزار عن ابن مسعود رضي اللہ تعالي عنه عن النبي صلي اللہ علیه وسلم قال : إن المرأۃ عورۃ فإذا خرجت من بیتها استشرفها الشیطان و أقرب ما تکون من رحمة ربّھا و هي في قعر بیتها ."

(ج: 11،ص: 253 ،ط: دارالإحياء التراث العربي)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"والأم إذا كانت فقيرة فإنه يلزم الابن نفقتها، وإن كان معسرا، أو هي غير زمنة، وإذا كان الابن يقدر على نفقة أحد أبويه، ولا يقدر عليهما جميعا فالأم أحق."

(كتاب الطلاق،الباب السابع عشر في النفقات،  ٥٦٥/١، ط:رشيدية)

تبیین الحقائق میں ہے:

"قال - رحمه الله -: (‌ولا ‌يشارك ‌الأب ‌والولد ‌في ‌نفقة ‌ولده ‌وأبويه ‌أحد) أما الأبوان فإن لهما تأويلا في مال الولد لقوله - صلى الله عليه وسلم - «أنت ومالك لأبيك»، ولا تأويل لهما في مال غيره، ولأنه أقرب الناس إليهما فصار أولى بإيجاب النفقة."

(كتاب الطلاق، باب النفقة، ٦٤/٣، ط:المطبعة الكبرى الأميرية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله والمعتبر فيه القرب والجزئية لا الإرث) أي الأصل في نفقة الوالدين والمولودين القرب بعد الجزئية دون الميراث كذا في الفتح: أي تعتبر أولا الجزئية: أي جهة الولاد أصولا أو فروعا، وتقدم على غيرها من الرحم، ثم يقدم فيها الأقرب فالأقرب، ولا ينظر إلى الإرث."

(كتاب الطلاق، باب النفقة، ٦٢٣/٣،ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506100056

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں