بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گرلز سنٹر اور بیوٹی پارلر میں کام سیکھنے کا حکم


سوال

1: کیا لڑکی بیوٹی پارلر کا کام شرعی حدود میں رہتے ہوئے سیکھ سکتی ہے؟ پھر اس کے بعد وہ بیوٹی پارلر میں کا م بھی نہ کرے، صرف اپنے شوق کےلیے سیکھنا جائز ہے؟

2: لڑکی باہر کسی گرلز سینٹر میں جاکر کوئی کورس کرسکتی ہے؟ مثلاً کھانا پکانا، مہندی لگانا، سلائی وغیرہ۔

جواب

واضح رہے کہ   اسلام نے ہر جائز  فطری آرائش و زیبائش کی اجازت دی ہے، ليكن اسلام نے اس کی كچھ حدود بھی مقرر کی ہے، ان حدود میں رہتے ہوئےعورت آرائش و زیبائش کرسکتی ہے ۔

عورت کےلیے اپنے شوہر کے واسطے جائز حدود میں رہ کر تحسین وتزئین کرنا صرف جائز نہیں بلکہ مستحسن بھی ہے، اور اس میں کسی دوسری خاتون سے مدد حاصل کرلینے  کی بھی گنجائش ہے۔

اسی طرح ایک عورت دوسری عورت سے جائز آرائش وزیبائش کا طریقہ  بھی سیکھ سکتی ہے،  لیکن جو چیزیں شرعاً ممنوع ہیں (مثلاً: بال تراشنا، جسم کوندھواکر مصنوعی تل بنانا، بھنوؤں اور پلکوں کے بال اکھیڑنا،  لمبے لمبے ناخن چھوڑ کران پر ڈیزائن بنانا،  دانتوں میں خلا پیدا کرنا وغیرہ ) ان کا سیکھانا اور اس کے ذریعے زیبائش و آرائش اختیار کرنا شرعاً ناجائز ہے۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں اگر کوئی خاتون آرائش و زیبائش کے جائز طریقے کسی عورت سے سیکھ لے تو اس کی گنجائش ہے، بشرطیکہ اس کام کے لیے آتے جاتے وقت اور بیوٹی پارلر میں ستر و حجاب کے شرعی اَحکام کی پاس داری کی جائے، بصورتِ دیگر اس کی اجازت نہیں ہوگی۔

2: اگر گرلز سینٹر میں صرف عورتیں ہی ہوں ، مردوں کے ساتھ اختلاط اور بے پر دگی کی فضا نہ ہو تو عورتوں سے کھانا بنانے، سلائی اورمہندی لگانے کا طریقہ سیکھنے کی گنجائش ہے، تاہم اگر بے پردگی اور مرد وزن کا اختلاط ہو یا سیکھانے والے مرد ہو یا دیگر کوئی غیر شرعی امور کا ارتکاب ہو تو پھر گرلز سینٹر جانا جائز نہیں ہے۔

قرآن مجيد ميں ہے:

"وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَىٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ ۖ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ". (سورة النور:٣١)

صحيح مسلم میں ہے:

"عن ‌جابر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: « إذا قدم أحدكم ليلًا فلايأتين أهله طروقًا حتى تستحد المغيبة وتمتشط الشعثة".

‌‌(كتاب الكراهية، باب كراهة الطروق، ج:6،ص:55، رقم:715، ط:دار طوق النجاة)

سنن ابي داؤد ميں ہے:

"عن عائشة: أن هندا بنت عتبة قالت: يا نبي الله بايعني، قال: "لا أبايعك حتى تغيري كفيك فكأنهما كفا سبع"

و عن عائشة قالت: أومت امرأة من وراء ستر بيدها كتاب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقبض النبي صلى الله عليه وسلم يده، فقال: "ما أدري أيد رجل أم يد امرأة" قالت: بل امرأة، قال: "لو كنت امرأة لغيرت أظفارك" يعني ‌بالحناء".

(كتاب الترجل، باب في الخضاب للنساء، ج:6، ص:241، ط:دار الرسالة)

سنن النسائی میں ہے:

"عن عائشة، أن امرأة، مدت يدها إلى النبي صلى الله عليه وسلم بكتاب فقبض يده، فقالت: يا رسول الله، مددت يدي إليك بكتاب فلم تأخذه، فقال: «إني لم أدر أيد امرأة هي أو رجل» قالت: بل يد امرأة، قال: «لو كنت امرأة ‌لغيرت ‌أظفارك بالحناء".

(کتاب الزینة، الخضاب للنساء، ج:8،ص:142، رقم:5089، ط:المطبوعات الاسلامی)

السنن الكبرى میں ہے:

"عن عبد الله رضي الله عنه قال: " لعن الله الواشمات والمستوشمات، والمتنمصات، والمتفلجات للحسن المغيرات خلق الله "۔۔۔قال أبو داود " تفسير الواصلة التي تصل الشعر بشعر النساء، والمستوصلة المعمول بها، والنامصة التي تنقش الحاجب حتى ترقه، والمتنمصة المعمول بها، والواشمة التي تجعل الخيلان في وجهها بكحل أو مداد والمستوشمة المعمول بها " قال الفراء: " النامصة التي تنتف الشعر من الوجه ومنه قيل للمنقاش المنماص لأنه ينتف به".

(كتاب القسم والنشوز، ‌‌باب ما لا يجوز للمرأة أن تتزين به، ج:7، ص:510، ط:دار الكتب)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144307100259

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں