بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مہندی جھلی یا چھلکے کی صورت میں اترے تب بھی وضو جائز ہے


سوال

آپ نے فرمایا تھا کہ عموماً جو مہندی رائج ہے اسے لگانے کے بعد جب رنگ آجائے تو اس کی تہہ نہیں جمتی، اس لیے اس کا صرف رنگ وضو اور غسل سےمانع نہیں ہوگا، اگرچہ جب اس کا رنگ جھڑنے لگے تو وہ جھلی یا چھلکے کی صورت میں چھوٹے۔ تو مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی؛ کیوں کہ مہندی جھلی یا چھلکے کی صورت میں اتر رہی ہے تو جائز نہیں ہونا چاہیے، آپ نے جو جواز کا فرمایا تو کس روایت سے استدلال کیا؟ اس طرح پوچھنا یہ میری طرف سے بے ادبی کے طور پر نہیں، بلکہ صرف دل کا اطمینان چاہتی ہوں؛ کیوں کہ یہ ہم لاکھوں کروڑں بہنوں کی نماز اور وضو کا معاملہ ہے!

جواب

ہاتھ پاؤں پر مہندی لگانے کے بعد اس کے خشک ہونے اور رنگ آجانے کے بعد پانی جسم تک پہنچنے میں عموماً رائج مہندی رکاوٹ نہیں بنتی،  بلکہ اس کے باوجود پانی جسم تک پہنچتا رہتا ہے، گو  اترتے وقت   بہت معمولی اور ہلکی سی چھلکا نما تہہ ہوتی ہے، اور  یہ بات مشاہدہ اور تجربہ کی بنیاد پر کہی گئی تھی۔  البتہ اگر کسی مہندی کے بارے میں مشاہدے یا تجربے سے ثابت ہوجائے کہ وہ پانی جسم تک پہنچنے میں رکاوٹ بنتی ہے، جیساکہ بازار میں دستیاب بعض مہندیوں ( جن میں مخصوص قسم کا کیمیکل ملا ہوتا ہے)  کے بارے میں تحقیق یہی ہے کہ وہ پانی جسم تک پہنچنے میں رکاوٹ بنتی ہیں تو ان کا لگانے سے وضو نہیں ہوگا۔ 

مزید تسلی کے  لیے مندرجہ ذیل لنکس ملاحظہ کیجیے:

کیپ کی مہندی (جس کو دھونے کے چار پانچ دن بعد پپڑی یا جھلی وغیرہ اترنے لگتی ہے) کے استعمال کی صورت میں وضو و غسل کا حکم

تہہ جمنے والی مہندی 

جامعہ کے سابقہ فتاویٰ میں ہے:

سوال:

آج کل بازار میں ایک مہندی آئی ہوئی ہے، اس کو لگایا جائے تو لگانے کے دس یا پندرہ منٹ بعد رنگ لے آتی ہے، لیکن جب یہ رنگ اترنا شروع ہوتاہے تو عام مہندی کے رنگ کی طرح نہیں، یعنی مٹتا نہیں  ہے، بلکہ ربڑ کی طرح کھال سے جدا ہوکر گرتاہے۔ اب بعض خواتین کا کہنا ہے کہ یہ جو اترتاہے، یہ رنگ نہیں ہے، بلکہ جسم کی کھال ہے، جو اس (کیمیکل ملی ہوئی) مہندی کے جلد پر اثرا نداز ہونے کی وجہ سے گرتی ہے، جب کہ بعض خواتین کا کہنا ہے کہ یہ مہندی کا رنگ ہے، جو مہندی لگانے کے بعد آجاتاہے، کھال نہیں ہے۔

اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس مہندی کا کیا حکم ہے؟ اس کو استعمال کیا جاسکتاہے یا نہیں؟ جسم سے جدا ہونے والی اس چیز کو مہندی کا رنگ شمار کیا جائے گا یا جسم کی کھال؟ اور اس رنگ کے موجود ہوتے ہوئے وضو اور غسل کا کیا حکم ہوگا؟

جواب:

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ مہندی کا استعمال شرعًا جائز ہے، اور اس مہندی کے رنگ کے ہوتے ہوئے وضو اور غسل بھی ہوجاتاہے؛ کیوں کہ اس کی کوئی ایسی تہہ نہیں ہوتی جو پانی کو جسم تک نہ پہنچنے دے۔

"مرقاۃ المفاتیح"  میں ہے:

"و أما خضب الیدین و الرجلین فیستحبّ في حقّ النساء، و یحرم في حق الرجال، إلا للتداوي."

(مرقاة المفاتیح، کتاب اللباس، باب الترجل، الفصل الثاني، 8/304، ط: امدادیہ ملتان)

"الاشباہ و النظائر"  میں ہے:

"الیقین لایزول بالشك."

(الأشباہ و النظائر، الفن الأول: القواعد الکلیة، القاعدة الثالثة: الیقین لایزول بالشك، ص:60، ط: قدیمی کراچی)

"فتاویٰ شامی" میں ہے:

" "(ولا يمنع) الطهارة (ونيم) أي خرء ذباب وبرغوث لم يصل الماء تحته (وحناء) ولو جرمه به يفتى .... (قوله: به يفتى) صرح به في المنية عن الذخيرة في مسألة الحناء والطين والدرن معللاً بالضرورة. قال في شرحها: ولأن الماء ينفذه؛ لتخلله وعدم لزوجته وصلابته، والمعتبر في جميع ذلك نفوذ الماء ووصوله إلى البدن اهـ."  

واضح رہے کہ اس فتوے پر جامعہ کی دار الافتاء کے تینوں اکابر مفتیانِ کرام (مفتی محمد انعام الحق صاحب، مفتی ابوبکر سعید الرحمٰن صاحب اور مفتی محمد شفیق عارف صاحب دامت برکاتہم العالیہ) کی تصحیح و تصدیق موجود ہے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112200071

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں