بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لاک ڈاون میں کرایہ لینے کا حکم


سوال

دوران لاک ڈاؤن دوکانوں کا کرایہ لینا مالک دوکان کیلے شرعاً جائز ہے یا نہیں برائے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں کرایہ پر دی ہوئی دکانوں اور دفاتر کے بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ اگر یہ جگہیں کرایہ دار کے قبضے اور تحویل میں ہیں اور اس نے یہ جگہیں مالک کو واپس نہیں کیں تو مالک اس دکان، مکان اور دفتر کے کرایہ کا حق دار ہوگا اور کرایہ دارشریعت کے قانون کے مطابق کرایہ ادا کرنے کا پابند ہوگا۔

تفصیل یہاں ملاحظہ کریں :

لاک ڈاؤن کے دوران دُکانوں کے کرایہ

شامی میں ہے :

(و) اعلم أن (الأجر لایلزم بالعقد فلایجب تسلیمہ) بہ (بل بتعجیلہ أو شرطہ في الإجارۃ) المنجزۃ ۔۔۔۔۔ (أو الاستیفاء) للمنفعۃ (أو تمکنہ منہ) إلا في ثلاث مذکورۃ في الأشیاء۔ (قولہ أو تمکنہ منہ) في الہدایۃ: وإذا قبض المستاجر الدار فعلیہ الأجرۃ وإن لم یسکن۔ قال في النہایۃ: وہٰذہ مقیدۃ بقیود: أحدہما التمکن، فإن منعہ المالک أو الأجنبي أو سلم الدار مشغولۃ بمتاعہ لاتجب الأجرۃ۔‘‘ (ج:۶، ص:۱۱، ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144204201043

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں