بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لباس اور انگوٹھی بیچنے کا حکم


سوال

جب سے ارطغرل غازی آیا تمام بچے اسے دیکھنے میں مبتلا ہیں،  اور اب تو اس کی ٹوپی، انگشتری ، اس کے لباس سب آچکے ہیں ، ان ٹوپیوں اور انگشتری کا بیچنا کیسا ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ لباس اگر شریعت کے مطابق ہو یعنی اُس میں یہود و نصاری کے ساتھ مشابہت نہ پائی جاتی ہو تو اس طرح  کے لباس فروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

رہی بات انگوٹھی کی تو واضح رہے کہ سونے یا چاندی کی انگوٹھی کے علاوہ دیگر دھاتوں کی بنی  ہوئی یا مصنوعی انگوٹھی پہننے  کی مرد و عورت کسی کو بھی شرعًا  اجازت نہیں ہے، لہٰذا سونا چاندی کے علاوہ دھات کی انگوٹھی کی بیع کراہت سے خالی نہیں ہوگی، ہاں خریدار کا مقصد اسے ڈھال کر  پہننے کے علاوہ کسی اور  صورت میں استعمال کرنا ہو تو کراہت نہیں ہوگی۔

لیکن انگوٹھی اگر سونا چاندی کی ہو تو اس کی خرید و فروخت تو جائز ہے،  لیکن عورتوں کے لیے اس کے پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے ، البتہ مردوں کے لیے حکم یہ ہے کہ سونے کی انگوٹھی تو مردوں پر حرام ہے،  جب کہ چاندی کی انگوٹھی صرف ایک مثقال  سے کم  وزن مردوں کے لیے حلال اور جائز ہے۔ایک مثقال  ساڑھے چار ماشے  یعنی۴گرام،۳۷۴ملی گرام (4.374 gm) ہوتا ہے۔ 

روایت میں آتا ہے کہ ایک  شخص نے دریافت کیاکہ یارسول اللہ! میں کس دھات کی انگوٹھی پہنوں؟تو آپ نے فرمایا: چاندی کی، مگر ایک مثقال تک اس کا وزن نہ پہونچے۔

باقی مذکورہ ڈراما دیکھنے کے حکم سے متعلق درج ذیل لنک پر فتویٰ ملاحظہ کیجیے:

’’ارطغرل‘‘ نامی ڈراما دیکھنے کا حکم

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 358):

'' (ولا يتحلى) الرجل (بذهب وفضة)  مطلقاً (إلا بخاتم ومنطقة وجلية سيف منها) أي الفضة ... (ولا يتختم) إلا بالفضة؛ لحصول الاستغناء بها، فيحرم (بغيرها كحجر) ... ولا يزيده على مثقال.

 (قوله: و لايتختم إلا بالفضة) هذه عبارة الإمام محمد في الجامع الصغير، أي بخلاف المنطقة، فلا يكره فيها حلقة حديد ونحاس كما قدمه، وهل حلية السيف كذلك؟ يراجع! قال الزيلعي: و قد وردت آثار في جواز التختم بالفضة وكان للنبي صلى الله تعالى عليه وسلم خاتم فضة، وكان في يده الكريمة، حتى توفي صلى الله تعالى عليه وسلم، ثم في يد أبي بكر رضي الله تعالى عنه إلى أن توفي، ثم في يد عمر رضي الله تعالى عنه إلى أن توفي، ثم في يد عثمان رضي الله تعالى عنه إلى أن وقع من يده في البئر، فأنفق مالاً عظيماً في طلبه فلم يجده، و وقع الخلاف فيما بينهم والتشويش من ذلك الوقت إلى أن استشهد رضي الله تعالى عنه. (قوله: فيحرم بغيرها إلخ)؛ لما روى الطحاوي بإسناده إلى عمران بن حصين وأبي هريرة قال: «نهى رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم عن خاتم الذهب»، وروى صاحب السنن بإسناده إلى عبد الله بن بريدة عن أبيه: «أن رجلاً جاء إلى النبي صلى الله تعالى عليه وسلم وعليه خاتم من شبه، فقال له: مالي أجد منك ريح الأصنام! فطرحه، ثم جاء وعليه خاتم من حديد، فقال: مالي أجد عليك حلية أهل النار! فطرحه، فقال: يا رسول الله من أي شيء أتخذه؟ قال: اتخذه من ورق ولا تتمه مثقالاً». " فعلم أن التختم بالذهب والحديد والصفر حرام؛ فألحق اليشب بذلك؛ لأنه قد يتخذ منه الأصنام، فأشبه الشبه الذي هو منصوص معلوم بالنص، إتقاني، والشبه محركاً: النحاس الأصفر، قاموس. وفي الجوهرة: والتختم بالحديد والصفر والنحاس والرصاص مكروه للرجل والنساء ... (قوله: و لايزيده على مثقال)، وقيل: لا يبلغ به المثقال، ذخيرة. أقول: ويؤيده نص الحديث السابق من قوله عليه الصلاة والسلام : «و لاتتممه مثقالاً»."

رہی بات ٹوپی کی توواضح رہے کہ ٹوپی کے سلسلے  میں شریعت نے کسی خاص رنگ کی تحدید یاتعیین نہیں فرمائی  اس طورپر کہ وہی رنگ لازم ہو،بلکہ آدمی کو اختیار ہے کہ کسی بھی رنگ کی ٹوپی استعمال کرے۔ البتہ رسول اللہﷺنے سفید رنگ کو  پسند فرماکراس کے پہننے کی  ترغیب دی ہے اور آپﷺسے خود بھی سفید رنگ کی ٹوپی پہنناثابت ہے ۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمومی معمول عمامہ پہننے کا تھا، اور عمامہ بھی اکثر اوقات آپ ﷺ سفید پہنتے تھے، بعض اوقات سیاہ رنگ کا عمامہ بھی ثابت ہے۔ 

اس لیے ٹوپی میں رسول اللہﷺکی پسند کے مطابق سفید کو اختیار کرنا  زیادہ بہتر ہے۔ دیگر رنگوں میں سرخ اور زرد رنگ اور ریشم سے مردوں کو منع کیاگیاہے، نیزشوخ رنگ اور وہ رنگ جو اہلِ باطل یا کسی گم راہ فرقے کا شعار(علامت)بن جائے ان رنگوں کے استعمال سے احتراز کرناچاہیے ۔  اور اس قسم کی ٹوپی کی فروخت میں ایک قسم کی کراہت شامل ہوجاۓ گی؛  لہٰذا کراہت سے بچنا چاہیے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209202054

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں