بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

’’ارطغرل‘‘ نامی ڈراما دیکھنے کا حکم


سوال

ارطغرل ڈراما دیکھنا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ تصویر کسی بھی جان دار کی  ہو  اس کا بلا ضرورت بنانا، رکھنا اور  دیکھنا قطعاًجائز نہیں، اسی طرح موسیقی کا سننا بھی شرعًا حرام ہے اور مذکورہ ڈراما جان دار  کی تصاویر   اور موسیقی  پر بھی مشتمل ہے؛ اس لیےمذ کورہ (ارطغرل نامی)  ڈراما  ہو  یا کوئی اور ڈراما  یا فلم، کسی کا بھی  دیکھنا شرعاً جائز نہیں، بلکہ اگر ڈراموں کو ثواب سمجھ کر دیکھا جائے تو یہ شدید ترین گناہ بن جائے گا؛ کیوں کہ کسی بھی گناہ کے کام کو نیکی سمجھ کر کرنا بہت بڑا جرم ہے اور عام طور سے گناہ کو نیکی سمجھ کر کرنے والے کو توبہ کی توفیق نہیں ملتی ہے۔

نیز عموماً  ٹی وی پر آنے والے پروگرام موسیقی ناچ گانے، بد نگاہی کے اسباب سے خالی نہیں ہوتے، لہذا اس قسم کے پروگراموں کے دیکھنے کی ترغیب دینا (علاوہ جان دار کی تصویر دیکھنے دکھانے کے) اشاعتِ فاحش، و  معاونت علی الاثم کے قبیل سے ہونے کی وجہ سے جائز نہیں؛  اس  لیے نفس ٹی وی دیکھنے یا موبائل پر ٹی وی والے ہر طرح کے پروگرام اور ڈرامے دیکھنے  (بلکہ موبائل کے ذریعے کسی بھی قسم کی ویڈیو دیکھنے) سے ہی مکمل اجتناب کرنا  چاہیے، جہاں تک خلافتِ عثمانیہ کی تاریخ جاننے  کی بات ہے، تو اس سلسلے میں مستند کتبِ تاریخ سے استفادہ کرنا  چاہیے۔

الدر المختار میں ہے:

"قلت: وفي البزازية: استماع صوت الملاهي - كضرب قصب، ونحوه - حرام؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: "استماع الملاهي معصية، والجلوس عليها فسق، والتلذذ بها كفر" أي: بالنعمة، فصرف الجوارح إلى غير ما خلق لأجله كفر بالنعمة، لا شكر، فالواجب كل الواجب أن يجتنب كي لايسمع؛ لما روي أنه عليه الصلاة والسلام أدخل أصبعه في أذنه عند سماعه، وأشعار العرب لو فيها ذكر الفسق تكره، اهـ أو لتغليظ الذنب، -كما في الاختيار -، أو للاستحلال، - كما في النهاية -".

 ( الشامية، كتاب الحظر و الإباحة، قبيل فصل في اللبس، ٩/ ٥٠٤، ط: دار عالم الكتب)

البريقة المحمودية في شرح الطريقة المحمدية لبركلي میں ہے:

"قال قاضي خان عن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم: (استماع الملاهي معصية، والجلوس عليها فسق، والتلذذ بها من الكفر، إنما قال عليه الصلاة والسلام ذلك، على وجه التشديد و إن سمع بغتةً فلا إثم عليه، و يجب عليه أن يجتهد كلّ الجهد حتي لايسمع؛ لما روي: أنّ  رسول الله صلي الله عليه وسلم أدخل أصبعيه في أذنه. انتهي".

( الباب الثاني / في الأمور المهمة في الشريعة، ٥ / ٤، ط: دار الكتب العلمية)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

 "٤٨١١ - «وَعَنْ نَافِعٍ - رَحِمَهُ اللَّهُ - قَالَ: كُنْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ فِي طَرِيقٍ، فَسَمِعَ مِزْمَارًا، فَوَضَعَ أُصْبُعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ وَنَاءَ عَنِ الطَّرِيقِ إِلَى الْجَانِبِ الْآخَرِ، ثُمَّ قَالَ لِي بَعْدَ أَنْ بَعُدَ: يَا نَافِعُ! هَلْ تَسْمَعُ شَيْئًا؟ قُلْتُ: لَا، فَرَفَعَ أُصْبُعَيْهِ مِنْ أُذُنَيْهِ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ فَسَمِعَ صَوْتَ يَرَاعٍ، فَصَنَعَ مِثْلَ مَا صَنَعْتُ. قَالَ نَافِعٌ: فَكُنْتُ إِذْ ذَاكَ صَغِيرًا» . رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَأَبُو دَاوُدَ.

وَفِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ: أَمَّا اسْتِمَاعُ صَوْتِ الْمَلَاهِي كَالضَّرْبِ بِالْقَضِيبِ وَنَحْوِ ذَلِكَ حَرَامٌ وَمَعْصِيَةٌ لِقَوْلِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ: " «اسْتِمَاعُ الْمَلَاهِي مَعْصِيَةٌ، وَالْجُلُوسُ عَلَيْهَا فِسْقٌ، وَالتَّلَذُّذُ بِهَا مِنَ الْكُفْرِ» " إِنَّمَا قَالَ ذَلِكَ عَلَى وَجْهِ التَّشْدِيدِ وَإِنْ سَمِعَ بَغْتَةً فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ، وَيَجِبُ عَلَيْهِ أَنْ يَجْتَهِدَ كُلَّ الْجَهْدِ حَتَّى لَا يَسْمَعَ لِمَا رُوِيَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَدْخَلَ أُصْبُعَهُ فِي أُذُنَيْهِ".

( بَابُ الْبَيَانِ وَالشِّعْرِ ، الْفَصْلُ الثَّالِثُ، ٧ / ٣٠٢٥)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200180

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں