بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑکی کا مہر مثل سے کم پر نکاح کرنا


سوال

میرے آپ سے دو سوال ہیں اور دونو ں سوال مہر مثل کے متعلق ہی ہیں :

(1) پہلا سوال یہ ہے کہ  ایک عاقل بالغ لڑکا لڑکی دو مسلمان عاقل بالغ گواہوں کے سامنے ایجاب و قبول کریں لڑکا لڑکی کا ہر لحاظ سے کفو ہے لیکِن نکاح مہر مثل سے بہت کم پر کیا گیا تو یہ نکاح کفو میں ہونا شمار ہوگا یا غیر کفو میں ہونا شمار ہوگا اور مہر مثل سے کم پر کیا گیا نکاح منعقد ہوتا ہے یا نہیں ؟

(2) میرا دوسرا سوال ہے ایک لڑکی جِس کا نام فاطمہ ہے اُس کی شادی ہوئی بنا مہر متعین کیے ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ نکاح کے وقت  اگر مہر پہلے متعین نہیں کیا جاۓ تو مہر مثل لازم ہوگا ۔جو اُس لڑکی کے اس جیسی لڑکی کاہو جیسے اس کی بہن،چچازاد،تایازاد یاپھوپھی زاد بہن کامہر تو وہی مہر اس لڑکی کا بھی واجب ہوگا،لیکِن اُس لڑکی کے باپ کے خاندان کی جتنی بھی لڑکیوں کی شادی ہوئی ہے جیسے چچازاد یا پُھوپھی زاد یا تایازاد ان کی شادی میں جہیز لیا تھا لڑکے والوں نے اور پھر جہیز کے علاوہ  لڑکے نے 2 لاکھ روپیہ بھی لیے تھے لڑکی والوں سے ۔مطلب کہ لڑکی والوں سے اتنا جہیز اور پیسہ لےکر پھر لڑکی کو 50 ہزار مہر دیا ۔ لیکِن ابھی میں جِس لڑکی کے بارے میں مسئلہ پوچھ رہا ہُوں جِس کا نام فاطمہ ہے۔ فاطمہ کی شادی ہوئی ہے بنا مہر متعین کیے ہوئی اُس کے شوہر نے بالکل بھی ایک روپیہ بھی جہیز نہیں لیا ہے تو پھر ایسی صورت میں مہر مثل کیسے لازم ہوگا جب کہ  اس کے خاندان کے سبھی لڑکی کے شوہروں نے اتنا پیسہ اور جہیز لیا ہے ،جبکہ فاطمہ کے شوہرنے  جہیز نہیں لیا ، تو فاطمہ کے شوہر پر مہر مثل کیسے لازم ہوگا؟  یہ بات عقل میں سمجھ سے باہر ہے ۔

جواب

1۔ اگر عاقلہ  بالغہ  لڑکی   باقاعدہ گواہوں کی موجودگی میں مہر مثل سے کم پرایجاب وقبول کرکے  نکاح کرلے تو شرعًا وہ نکاح منعقد ہوجاتا ہے اور نکاح کفو (برابری ) میں ہونا کہلائےگا۔البتہ مہر، مہر مثل سے کم ہونے کی وجہ سے لڑکی کے   ولی کو اعتراض کا حق حاصل   ہوگا اوروہ  لڑکی کے حاملہ ہو نے  سے پہلے کورٹ کے ذریعہ نکاح ختم کراسکتا ہے۔

2۔اگر مسمات فاطمہ کا بوقت نکاح کوئی مہر مقرر نہیں ہوا تھا تو نکاح کے بعد زوجین باہمی رضامندی سے مہر طے کرسکتے ہیں اور وہی مہر شوہر پر ادا کرنا لازم ہوگا،البتہ ااگر زوجین مہرکی تعیین پر  باہمی رضامندی سے متفق نہیں ہوتے  تو شوہر پر مہر مثل لازم ہوگا،یعنی  جتنا مہر لڑکی کے باپ کے خاندان میں اس جیسی لڑکیوں کا ادا کیا گیا، اُ تنا ہی مہر فاطمہ کا بھی ہوگا۔باقی جہیز کے لینے یا نہ لینے سے مہر (مثل)  کا کوئی تعلق نہیں ہے،کیوں کہ جہیز تو والدین کی طرف سے اپنی بیٹی کو ضرورت کی  چیزیں بطور تحفہ دینے کا نام ہے،جس کی مالک بیٹی ہی ہوتی ہے،اور  دولاکھ روپے اگر لڑکی کے والدین نے لڑکے کو خود دیے ہیں تو یہ لڑکی کے والدین کی جانب سے لڑکے کو ہدیہ ہے،جب کہ مہر بیوی کا حق ہے جس کی ادائیگی شوہر پر لازم ہوتی ہے۔

جہیز کے حوالے سے مزید دیکھیے:

جہیز لینے اور شادی سے پہلے منگیتر کو زیورات دینے کا حکم

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"(ولو نكحت بأقل من مهرها فللولي) العصبة (الاعتراض حتى يتم) مهر مثلها (أو يفرق) القاضي بينهما دفعا للعار.

(قوله: الاعتراض) أفاد أن العقد صحيح. وتقدم أنها لو تزوجت غير كفء. فالمختار للفتوى رواية الحسن أنه لا يصح العقد، ولم أر من ذكر مثل هذه الرواية هنا، ومقتضاه أنه لا خلاف في صحة العقد، ولعل وجهه أنه يمكن الاستدراك هنا بإتمام مهر المثل، بخلاف عدم الكفاءة والله تعالى أعلم.

(قوله: دفعا للعار) أشار إلى الجواب عن قولهما ليس للولي الاعتراض. لأن ما زاد على عشرة دراهم حقها ومن أسقط حقه لا يعترض عليه ولأبي حنيفة أن الأولياء يفتخرون بغلاء المهور ويتعيرون بنقصانها فأشبه الكفاءة بحر والمتون على قول الإمام."

(کتاب النکاح،باب الکفاءۃ،ج3،ص94،ط:سعید)

وفیه أیضاً:

"(وكذا يجب) مهر المثل (فيما إذا لم يسم) مهرا (أو نفى إن وطئ) الزوج (أو مات عنها إذا لم يتراضيا على شيء) يصلح مهرا (وإلا فذلك) الشيء (هو الواجب،

قوله وإذا لم يتراضيا) أي بعد العقد (قوله وإلا) بأن تراضيا على شيء فهو الواجب بالوطء أو الموت أما لو طلقها قبل الدخول فتجب المتعة كما يأتي في قوله: وما فرض بعد العقد أو زيد لا يتنصف."

(کتاب النکاح،باب المہر،ج3،ص109،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144312100673

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں