بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جہیز لینے اور شادی سے پہلے منگیتر کو زیورات دینے کا حکم


سوال

1۔جہیز لینا کیسا ہے ؟

2۔ شادی سے پہلے لڑکا اپنی ہونے والی بیوی کے لیے جو سونے کے  زیورات بنواتا ہے ، اُس کا بنوانا کیسا ہے ؟

جواب

1۔لڑکی کے والدین شادی کے موقع پر  اگر اپنی خوشی سے  بغیر کسی  جبر  اور دباؤ کے اپنی بچی کو اپنی استطاعت کے بقدر  جہیز کا سامان دیں  اور  اس میں نمود نمائش مقصود نہ ہو تو   لڑکے والوں کے لیے اس کا لینا جائز ہے ، لیکن جہیز کا سامان لڑکی ہی کی ملکیت ہوگا؛ کیوں کہ جہیز  کی حیثیت والدین کی طرف سے بیٹی کے حق میں ہدیہ (گفٹ) کی  ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی  صاحب زادیوں کی شادی کے موقع پر حسبِ استطاعت سامان دیا تھا۔ اور اگر لڑکے والے جہیز کا مطالبہ کریں  یا معاشرتی دباؤ کی وجہ سے محض رسم پوری کرنے کے لیے لڑکی والے نا چاہتے ہوئے بھی جہیز کا سامان  دینے پر مجبور ہوجائیں تو ایسی صورت میں لڑکے والوں کو چاہیے کہ جہیز لینے سے انکار کردیں۔

مسند أحمد میں ہے:

"عن علي: " أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما ‌زوجه ‌فاطمة بعث معه بخميلة ووسادة من أدم حشوها ليف، ورحيين وسقاء وجرتين ."

(مسند العشرة المبشرين بالجنة،مسند علي بن أبي طالب رضي الله عنه،2/ 191 ،ط:مؤسسة الرسالة)

حدیث شریف میں ہے:

"قال رسول الله صلی الله عليه وسلم:ألا لاتظلمواألالايحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه."

ترجمہ:خبردار ہوجاؤ! ظلم نہ کرو،خبردار ہوجاؤ! کسی آدمی کا مال  اسی رضامندی کے بغیر حلال نہیں ہے۔

(مشكاة المصابيح،باب الغصب والعارية،2611/1،ط:رحمانية)

الموسوعة الفقهية ميں هے:

"الجهاز بالفتح، والكسر لغة قليلة، وهو اسم… لما تزف به المرأة إلى زوجها من متاع."

( الموسوعة الفقهية الكويتية،165/16،دار السلاسل)

الموسوعة الفقهية ميں هے:

"ذهب جمهور الفقهاء إلى أنه لا يجب على المرأة أن تتجهز بمهرها أو بشيء منه، وعلى الزوج أن يعد لها المنزل بكل ما يحتاج إليه ليكون سكنا شرعيا لائقا بهما. وإذا تجهزت بنفسها أو جهزها ذووها فالجهاز ملك لها خاص بها."

(الموسوعة الفقهية الكويتية،166/16،دار السلاسل)

2۔شادی سے پہلے لڑکا اپنی ہونے والی بیوی کو اپنی خوشی سے سونے كے  زیورات بنواکر دےتو اس کے بنوانے میں کوئی مضائقہ نہیں، بلکہ  جائز ہے اور اس کی حیثیت ہدیہ(گفٹ) کی ہے۔

 فتاوی شامی میں ہے:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل ......الخ"

(کتاب الھبة،690/5،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100093

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں