لام آن لائن کمپنی میں کام کرنے کا کیا حکم ہے؟
لام ایک کمپنی ہے اس میں کام کرنے کے لیے 15000 روپےکمپنی کو بطور سیکورٹی یا انٹری فیس کے ادا کرنا پڑتے ہیں جس پر کمپنی آپ سے 180 دن کام کرنے کا معاہدہ کرتی ہے ۔ اورکمپنی کے کہنے کے مطابق یہ جمع شدہ رقم 180 دن بعد معاہدہ پورا ہونے پر کمپنی آپ کو واپس دے گی۔ اس میں کام یہ ہوتا کہ کمپنی ورکرز کو روزانہ 12 ویڈیوز کے لنک دیتی ہے ورکر نے ان ویڈیوز کو لائک کر کے سکرین شارٹ لے کر واپس بھیجنا ہوتا ہے ۔ ایک ویڈیو کے 50 روپے ہیں اگر ہم 12 ویڈیوز کو لائک کریں تو روزانہ 600 روپے ملیں گے اگر 6 ویڈیوز کو لائک کریں تو 300 روپے ملیں گے ۔الغرض 50 روپے کے حساب سے جتنی ویڈیو ہم لائک کریں گے کمپنی 50 روپے کے حساب سے پیسے دیتی ہے ۔ اور جس دن کام نہ کریں اس دن پیسے نہیں ملتے ۔
اور یہ بھی واضح رہے کہ کمپنی کا مقصد ویڈیوز کو دیکھنا یا پھیلانا مقصود نہیں ہے ۔اور اکثر اوقات ویڈیو ریسپی یعنی کھانا بنانے کےمتعلق ہوتی ہیں جن میں کسی مرد یا عورت کا چہرہ نظر نہیں آتا ۔ اور کبھی مردوں اور عورتوں کی غیر شرعی ویڈیوز بھی آجاتی ہیں ۔ تو کیا ایسی کمپنی میں کام کرکے پیسے کمانا جائز ہے یا نہیں یا جس دن غیر شرعی ویڈیوز ہوں اس دن کام نہ کریں اور بقیہ دن کام کرلیں تو اس دن کی کمائی کا کیا حکم ہے ؟
صورت ِ مسئولہ میں مذکورہ کمپنی سے رقم حاصل کرنا درج ذیل مفاسد کی وجہ سے ناجائز ہے :
مذکورہ کمپنی کی جانب سے روزانہ لائک کرنے کے لیے جو ٹاسک ملتا ہے اور اس پر کلک کرنے پر بطور معاوضہ پیسہ دیا جاتا ہے یہ بظاہر اجارہ کا معاملہ ہے ؛ لیکن اس میں خرابی یہ ہے کہ اجارہ میں اجیر سے کوئی معاوضہ نہیں لیا جاتا، بلکہ اجیر کو اس کے عمل پر محنتانہ دیا جاتا ہے، جب کہ مذکورہ کمپنی میں اجیر کو پہلے رقم پیش کرنی ہوتی ہے اور اس پر اس کو ٹاسک ملتا ہے، جتنی رقم زیادہ ہوگی، اسی حساب سے روزانہ کی کمائی بھی بڑھے گی،مزید یہ کہ ٹاسک پر کلک کرنا فی نفسہ کوئی مفید عمل نہیں جس پر اجارہ کو درست کہا جا سکے۔ اور دوسری خرابی یہ ہے کہ مذکورہ کمپنی کے بھیجے جانے والے لنک گوغیراخلاقی نہ بھی ہوں، پھر بھی جاندار کی یا نامحرم کی تصویر پر مشتمل ہوتے ہیں جن کودیکھ کر اس کو لائک کیا جاتا ہے ۔اور جان دار اشیاء اور غیر محرم کی تصاویر دیکھنا اور اس کو لائک کرنا شرعاً جائز ہی نہیں ہے، چہ جائیکہ اس عمل کوآمدن کاذریعہ بنایا جائے ۔
مزید دیکھیے:
فتاوی شامی میں ہے :
"والأجرة إنما تكون في مقابلة العمل".
(باب المہر،ج:3،ص:156،سعید)
البحر الرائق میں ہے :
"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصويره صورة الحيوان وأنه قال: قال أصحابنا وغيرهم من العلماء: تصوير صور الحيوان حرام شديد التحريم وهو من الكبائر لأنه متوعد عليه بهذا الوعيد الشديد المذكور في الأحاديث يعني مثل ما في الصحيحين عنه - صلى الله عليه وسلم - «أشد الناس عذابا يوم القيامة المصورون يقال لهم أحيوا ما خلقتم» ثم قال وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره فصنعته حرام على كل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم ودينار وفلس وإناء وحائط وغيرها اهـ. فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل لتواتره."
(باب مایفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا ،ج:2،ص:29،دارالکتاب الاسلامی)
الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے :
"الإجارة علی المنافع المحرمة کالزنی والنوح والغناء والملاهی محرمة وعقدها باطل لا یستحق به أجرة۔ ولا یجوز استئجار کاتب لیکتب له غنائً ونوحًا، لأنه انتفاع بمحرم۔ وقال أبو حنیفة : یجوز، ولا یجوز الاستئجار علی حمل الخمر لمن یشربها، ولا علی حمل الخنزیر."
(کتاب الاجارۃ،الاجارۃ علی المعاصی ،ج:1،ص:290،دارالسلاسل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144502102275
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن