بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا حکومتی ٹیکس زکات سے ادا کر سکتے ہیں؟


سوال

1۔سعودیہ میں غیر ملکیوں پر جو ٹیکس عائد کیاگیاہے، کیایہ جائز ٹیکس ہے؟

2۔  کیا ٹیکس کی مقدار کو زکاۃ میں منہا کیا جاسکتا ہے؟ 

جواب

(1)  کسی بھی مملکت و  ریاست کے  انتظامی امور چلانے کے لیے، اور ضرورت مندوں کی امداد، سڑکوں، پلوں اور تعلیمی اداروں کی تعمیر، بڑی نہروں کا انتظام، سرحد کی حفاظت کا انتظام، فوجیوں اور سرکاری ملازمین کو مشاہرہ دینے و دیگر ہمہ جہت جائز اخراجات کو پورا کرنے کے لیے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے، اور ان وسائل کو پورا کرنے کے لیے نبی کریمﷺ، خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مبارک عہداور ان کے بعد کے روشن دور میں بیت المال کا ایک مربوط نظام قائم تھا، جس میں امور سلطنت چلانے کے واسطے   مختلف قسم کے اموال جمع کیے جاتے تھے،مثلاً:

1۔ ’’خمسِ غنائم‘‘ یعنی جو مال کفار سے بذریعہ جنگ حاصل ہو  اس کے چار حصے مجاہدین میں تقسیم کرنے کے بعد پانچواں حصہ ۔

2۔ مالِ ِ فییٔ یعنی وہ مال جو بغیر کسی مسلح جدو جہد کے حاصل ہو۔

3۔ ’’خمسِ معادن‘‘یعنی مختلف قسم کی کانوں سے نکلنے والی اشیاء میں سے پانچواں حصہ۔

4۔ ’’خمسِ رکاز ‘‘  یعنی جو قدیم خزانہ کسی زمین سے برآمد ہو ، اس کا بھی پانچواں حصہ۔

5۔ غیر مسلموں کی زمینوں سے حاصل شدہ خراج اور ان کا جزیہ اور ان سے حاصل شدہ تجارتی ٹیکس اور وہ اموال جو غیر مسلموں سے ان کی رضامندی کے ساتھ مصالحانہ طور پر حاصل ہوں۔

6۔ ’’ضوائع‘‘  یعنی لا وارث مال ، لاوارث شخص کی میراث وغیرہ۔

لیکن آج کے دور میں جب کہ یہ اسباب و وسائل  ناپید ہوگئے ہیں تو  ان ضروریات اور اخراجات کو پورا کرنے کے لیےٹیکس کا نظام قائم کیا گیا؛ کیوں کہ اگر حکومت ٹیکس نہ لے تو فلاحی مملکت کا سارا نظام خطرہ میں پڑ جائے گا۔

البتہ اس میں شک نہیں کہ مروجہ ٹیکس کے نظام میں کئی خرابیاں ہیں، سب سے اہم یہ ہے کہ ٹیکس کی شرح بعض مرتبہ غیر منصفانہ، بلکہ ظالمانہ ہوتی ہےاور یہ کہ وصولی کے بعدبے جا اسراف اور غیر مصرف میں ٹیکس کو خرچ کیا جاتا ہے،لیکن بہرحال ٹیکس کے بہت سے جائز مصارف بھی ہیں؛ اس لیے امورِ مملکت کو چلانے کی خاطر حکومت کے لیے بقدرِ ضرورت اور رعایا کی حیثیت کو مدِّ نظر رکھ کر ٹیکس لینے کی گنجائش نکلتی ہے۔

  اوپر ذکر کردہ تفصیل کے مطابق اگر حکومت کے  جائزمصارف دیگر ذرائعِ آمدنی سے پورے نہیں ہوتے ہوں تو  چند شرائط کے ساتھ حکومت کو اپنے مصارف پورا کرنے کے لیے ٹیکس لینےکی اجازت ہوگی:

1۔ بقدرِ ضرورت ہی ٹیکس لگایا جائے۔

2 ۔لوگوں کے لیے قابلِ برداشت ہو۔

3۔وصولی کا طریقہ مناسب ہو۔

4۔ ٹیکس کی رقم کو ملک و ملت کی واقعی ضرورتوں اور مصلحتوں پر صرف کیاجائے۔

  جس ٹیکس میں مندرجہ بالا شرائط کا لحاظ نہ کیا جاتا ہو تو حکومت کے لیے ایسا ٹیکس جائز نہیں، اور ایسا ٹیکس لینے والوں کے متعلق احادیث میں وعید آئی ہے۔ 

(2)   سائل کے سوال کا مقصد اگر یہ دریافت کرنا ہے کہ 

کیا زکاۃ کی رقم سے ٹیکس ادا کیا جاسکتا ہے؟ تو اس حوالہ سے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ زکاۃ ایک عبادت ہے، جس کی ادائیگی صحیح ہونے کے لیے، خالص اللہ کی رضا کے حصول کی نیت سے مستحقینِ زکاۃ میں سے کسی مستحق کی ملکیت میں مالِ زکاۃ دینا شرعاً ضروری ہے، جن کی تعیین اللہ رب العزت نے خود قرآن مجید میں کردی ہے، اور ان مصارف کے علاوہ کسی اور جگہ خواہ وہ رفاہی و فلاحی کام ہی کیوں نہ ہو، زکاۃ کا مال خرچ کرنے سے زکاۃ ادا نہیں ہوتی، لہذا ٹیکس کی ادائیگی زکاۃ کی رقم سے کرنے سے زکاۃ ادا نہ ہوگی، بدستور واجب الادا  رہے گی۔

اس حوالے سے مزید تفصیل دیکھنے کے لیے درج ذیل لنک پر فتویٰ ملاحظہ کیجیے:

کیا ٹیکس ادا کرنے سے زکاۃ ادا ہوجائے گی؟

اور اگر سوال کا مقصد یہ معلوم کرنا ہو کہ کیا کل سرمایہ میں زکاۃ کا حساب کرتے ہوئے آیا حکومتی ٹیکس کی رقم کل سرمایہ سے منہا کرکے بقیہ سرمایہ کے حساب سے ڈھائی فیصد زکاۃ دی جائے گی یا ٹیکس منہا کیے بغیر کل کا ڈھائی فیصد بطورِ زکاۃ دینا ہوگا؟ تو اس حوالے سے حکم یہ ہے کہ زکاۃ کا سال مکمل ہونے تک جتنا ٹیکس واجب الادا ہو  اتنی رقم کل سرمایہ سے منہا کرلی جائے، البتہ جس ٹیکس کی ادائیگی فی الحال یعنی زکاۃ کا سال مکمل ہونے کے وقت تک لازم نہ ہوئی ہو، وہ منہا نہیں کی جائے  گا۔

الفقه الإسلامي و أدلته للزحيلي  میں ہے:

"سابعاً ـ هل تجزئ الضريبة المدفوعة للدولة عن الزكاة؟

لاتجزئ أصلاً الضريبة عن الزكاة؛ لأن الزكاة عبادة مفروضة على المسلم شكراً لله تعالى وتقرباً إليه، والضريبة التزام مالي محض خال عن كل معنى للعبادة والقربة، ولذا شرطت النية في الزكاة ولم تشرط في الضريبة، ولأن الزكاة حق مقدر شرعاً، بخلاف الضريبة فإنها تخضع لتقدير السلطة، ولأن الزكاة حق ثابت دائم، والضريبة مؤقتة بحسب الحاجة، ولأن مصارف الزكاة هي الأصناف الثمانية: الفقراء والمساكين المسلمون إلخ، والضريبة تصرف لتغطية النفقات العامة للدولة. وللزكاة أهداف روحية وخلقية واجتماعية إنسانية، أما الضريبة فلايقصد بها تحقيق شيء من تلك الأهداف". (الفَصْلُ الأوَّل: الزَّكاةُ، المطلب الثاني ـ أحكام متفرقة في توزيع الزكاة، ٣ / ١٩٧٩، ط: دار الفكر)

البحر الرائق میں ہے:

"وَشَرَطَ فَرَاغَهُ عَنْ الدَّيْنِ؛ لِأَنَّهُ مَعَهُ مَشْغُولٌ بِحَاجَتِهِ الْأَصْلِيَّةِ فَاعْتُبِرَ مَعْدُومًا كَالْمَاءِ الْمُسْتَحَقِّ بِالْعَطَشِ... وَفِي الْهِدَايَةِ: وَالْمُرَادُ دَيْنٌ لَهُ مُطَالِبٌ مِنْ جِهَةِ الْعِبَادِ". ( كتاب الزكوة، شُرُوط وُجُوب الزَّكَاة، ٢ / ٢١٩ - ٢٢٠، ط: دار الكتاب الإسلامي) فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144107201234

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں