بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا داڑھی کاٹنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر خنجر چلانے کے مترادف ہے؟


سوال

میں نے سنا ہے کہ شیونگ کرنا مطلب داڑھی بنانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر خنجر چلانے کے برابر ہے، کیا یہ بات درست ہے؟ کیا کوئی ایسی حدیث موجود ہے؟

جواب

واضح رہے کہ ایک مشت ڈاڑھی رکھنا واجب ہے، اس سے کم کرنا معصیت اور   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے  صریح حکم  کی خلاف ورزی ہے، اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کے حکم کی خلاف ورزی بنص قرآنی ممنوع ہے، لہذا  داڑھی منڈوانا حرام ہے،  جس پر تمام امت کا اجماع ہے۔

صحيح البخاريمیں ہے:

"٥٨٩٣ - حدثني ‌محمد: أخبرنا ‌عبدة: أخبرنا ‌عبيد الله بن عمر، عن ‌نافع، عن ‌ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «انهكوا الشوارب وأعفوا اللحى.»

( كتاب اللباس، باب إعفاء اللحى، ٧ / ١٦٠، ط: السلطانية، بالمطبعة الكبرى الأميرية، ببولاق)

ترجمہ:" حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا "مونچھیں خوب کترواو، اور داڑھی کو بڑھاؤ"۔

أحكام القرآن للجصاصمیں ہے:

"وقوله تعالى: {وما كان لمؤمن ولا مؤمنة إذا قضى الله ورسوله أمرا أن يكون لهم الخيرة من أمرهم} فيه الدلالة على أن أوامر الله تعالى وأوامر رسوله على الوجوب; لأنه قد نفى بالآية أن تكون لنا الخيرة في ترك أوامر الله وأوامر الرسول صلى الله عليه وسلم ولو لم يكن على الوجوب لكنا مخيرين بين الترك والفعل، وقد نفت الآية التخيير. وقوله تعالى: {ومن يعص الله ورسوله} في نسق ذكر الأوامر يدل على ذلك أيضا وأن تارك الأمر عاص لله تعالى ولرسوله فقد انتظمت الآية الدالة على وجوب أوامر الله وأوامر الرسول صلى الله عليه وسلم من وجهين: أحدهما: أنها نفت التخيير معهما. والثاني: أن تارك الأمر عاص لله ورسوله."

( سورة النور، ٣ / ٤٧١، ط: دار الكتب العلمية بيروت )

البتہ سائل نے دل پر خنجر چلانے کی جو بات نقل کی ہے، اس مضمون کی کوئی روایت تلاش کے باوجود نہ مل سکی، تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کے احکامات کی خلاف ورزی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ایذا  رسانی کا باعث ہے،مولانا محمد ادریس میرٹھی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"مرزا قتیل کا قصہ آپ نے سنا ہو گا، ان کے صوفیانہ کلام سے متاثر ہو کر ایک ایرانی شخص ان کا معتقد ہو گیا اور زیارت کے شوق میں وطن سے چلا، جس وقت ان کے پاس پہنچا، تو مرزا صاحب (نائی کے سامنے بیٹھے)داڑھی کا صفایا کر رہے تھے، تو اس ایرانی نے تعجب سے دیکھا اور کہاکہ: "آغا! ریش می تراشی؟" (جناب ! آپ داڑھی منڈا رہے ہیں ؟!)

مرزا نے جواب دیا: " بلے ! موئے می تراشم ولے دلے کسے نمی خراشم"۔ (ہاں ! ہاں! اپنے ہی بال تراش رہا ہوں ، کسی کا دل تو نہیں چھیل رہا۔) گویا : "دل بدست آورکہ حج اکبر است" کی طرف صوفیانہ اشارہ کیا، کہ اپنے متعلق انسان جو چاہے کرے، مگر مخلوقِ خدا کا دل نہ دکھائے۔ ایرانی نے بے ساختہ جواب دیا: "بلے دل رسول می تراشی"۔ (کسی کا دل دکھانا چہ معنیٰ! تم آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا دل چھیل رہے ہو۔) یہ سن کر مرزا کو وجد آ گیا اور بے ہوش ہو کر گر پڑے، ہوش آیا تو زبان پر یہ شعر تھا: "جزاک اللہ کہ چشمم باز کر دی،  مُرا با جان جاناں ہمراز کر دی" (آپ کو اللہ جزائے خیر دے، میں تو اندھا تھا، آپ نے میری آنکھوں سے پردہ اٹھا دیا اور اندر کے راز سے آگاہ کر دیا)"۔

(داڑھی کی قدر وقیمت، ص: 41، مکتبہ رشیدیہ، کراچی)

العرف الشذی میں ہے:

”وأما تقصیرُ اللحیة بحیثُ تصیرُ قصیرة من القبضة، فغیرُ جائزٍ فی المذاهب الأربعة.“

( کتاب الآداب، باب ما جاء في تقلیم الأظفار، ٤ / ١٦٢، ط: دار الکتب العلمیة)

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

" يحرم على الرجل قطع لحيته."

( كتاب الحظر والإباحة،  فصل في البيع،  ٦ / ٤٠٧، ط: دار الفكر )

مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: کیا داڑھی رکھنا واجب ہے؟ / کیا داڑھی کٹوانا گناہ نہیں؟

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100288

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں