بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا داڑھی رکھنا واجب ہے؟ / کیا داڑھی کٹوانا گناہ نہیں؟


سوال

میرا ایک دوست داڑھی سے متعلق کہتا ہے کہ:

الف۔ داڑھی سنت ہے واجب نہیں۔ دلیل یہ پیش کرتا ہے کہ : واجب کے ثبوت کے  لیے دلیل کا قطعی الثبوت وقطعی الدلالہ ہونا ضروری ہے، جب کہ  داڑھی سے متعلق تمام احادیث ظنی الثبوت ہیں۔

ب۔ واجب صرف عبارت النص سے ثابت ہوتا ہے،  جب کہ قرآن کی عبارت النص سے داڑھی ثابت نہیں۔

ج۔ کہتا ہے کہ داڑھی شریعت کے مطلوبہ امور میں سے نہیں ہے، بلکہ اختیاری امر ہے بڑی فضیلت کا کام ہے کوئی کرے تو اچھی بات ہے نہ کرے تو کوئی حرام اور گناہ نہیں۔

کیا میرے دوست کے خیالات ٹھیک ہیں؟  اگر نہیں تو مدلل اور قابل اطمینان جواب عنایت فرمائیں!

جواب

الف: واضح رہے کہ اصطلاح فقہ میں واجب اس عمل کو کہا جاتا ہے، جس کا ثبوت قطعی الثبوت وظنی الدلالہ یا ظنی الثبوت وقطعی الدلالہ نصوص سے ہو، پس واجب کے ثبوت کے لئے  قطعی الدلالہ و قطعی الثبوت نصوص کا ہونا شرعا ضروری نہیں  ہوتا ہے، پس داڑھی کا ثبوت جن احادیث سے ہوتا ہے، ان کا ظنی ہونا، وجوب کے منافی نہیں، لہذا صورتِ  مسئولہ میں داڑھی کے وجوب کا انکار کرنا شرعا  اجماع امت و دیگر نصوص شرعیہ کے خلاف ہے۔

علامہ سبکی رحمہ اللہ  نے  "المنہل العذب المورود“ میں  لکھا ہے: 

داڑھی کا منڈانا سب ائمہ مجتہدین امام ابو حنیفہ ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل وغیرہ رحمہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک حرام ہے۔

" کان حلق اللحیة محرّماً عند ائمة المسلمین المجتهدین أبي حنیفة، ومالک، والشافعي، وأحمد وغیرهم -رحمهم الله تعالیٰ-".

 ( کتاب الطهارۃ، أقوال العلماء فی حلق اللحية واتفاقهم علی حرمته، ١ / ١٨٦، ط: مؤسسة التاریخ العربی، بیروت، لبنان ) 

بوادر النوادر میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ   لکھتے ہیں:

" قال العلائي في کتاب الصوم قبیل فصل العوارض:  " إن الأخذ من اللحیة، وهي دون القبضة، کما یفعله بعض المغاربة ومُخنثة الرجال، لم یبحه أحد، وأخذ کلّها فعل الیهود والهنود ومجوس الأعاجم․ اهـ"  فحیث أدْمن علی فعل هذا المحرّم یفسق، وإن لم یکن ممن یستخفونه ولا یعدّونه قادحا للعدالة والمروة، إلخ." 

(تنقیح الفتاوي الحامدية، کتاب الشھادۃ، ٤ / ٢٣٨، 4/،ط: مكتبة رشیدية)

"قلت (الأحقر) : قوله: "لم یبحه أحد" نصٌّ في الإجماع، فق"․

(پچپنواں نادرہ در اجماع بر حرمت اخذ لحیہ دون القبضہ،ص:٤٤٣،   ط: ادارہ اسلامیات لاہور)

علامہ علائی رحمہ اللہ کی مذکورہ عبارت کے آخر میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ نے  لکھا ہے :

علامہ حصکفی رحمہ اللہ کا قول: "لم یبحه أحد"داڑھی منڈانے کی حرمت پر اجماع کی صریح دلیل ہے۔

العرف الشذی میں علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:

"وأما تقصیرُ اللحیة بحیث تصیر قصیرة من القبضة، فغیر جائز فی المذاهب الأربعة."

( کتاب الآداب، باب ما جاء فی تقلیم الأظفار٤ / ١٦٢، ط: دار الکتب العلمية)

حاشيۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے:

" واعلم أن الأدلة أربعة أنواع الأول قطعي الثبوت والدلالة كالآيات القرآنية والأحاديث المتواترة الصريحة التي لا تحتمل التأويل من وجه الثاني قطعي الثبوت ظني الدلالة كالآيات والأحاديث المؤولة الثالث ظني الثبوت قطعي الدلالة كأخبار الآحاد الصريحة الرابع ظني الثبوت والدلالة معا كأخبار الآحاد المحتملة معاني فالأول يفيد القطع والثاني يفيد الظن والثالث يفيد الواجب والمكروه وتحريما والرابع يفيد السنية والإستحباب وقد يطلق الفرض ويراد به ما يشمل القطعي والعملي ويطلق الواجب ويراد به الفرض العملي أيضا ولهذا قال بعض المحققين إنه أقوى نوعي الواجب وأضعف نوعي الفرض ثم الفرض من حيث هو قسمان أيضا فرض عين وفرض كفاية فالأول ما يلزم كل فرد ولا يسقط بفعل البعض كالوضوء مثلا والثاني ما يلزم جملة المفروض عليهم دون كل فرد بخصوصه فيسقط عن الجميع بفعل البعض كاستماع القرآن وحفظه ورد السلام وتشميت العاطس وغسل الميت والصلاة عليه والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر والجهاد إن لم يكن النفير عاما وإلا فهو فرض عين ثم جميع فروض الكفاية ثوابها للمباشر وحده وإثم تركها على الجميع ومقتضى ترك الفرض عدم الصحة مطلقا والإثم إن كان عمدا ومقتضى ترك الواجب كراهة التحريم مع العمد وإلا فسجود السهوان كان في الصلاة ومقتضى ترك السنة والمستحب كراهة التنزيه مع العمد وإلا فلا ."

( كتاب الطهارة، فصل في احكام الوضوء، ص: ٥٧، ط: دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)

رد المحتار على الدر المختار میں ہے:

"(قوله: فلا يكفر جاحده) لما في التلويح من أن الواجب لا يلزم اعتقاد حقيقته لثبوته بدليل ظني، ومبنى الاعتقاد على اليقين، لكن يلزم العمل بموجبه للدلائل الدالة على وجوب اتباع الظن، فجاحده لا يكفر، وتارك العمل به إن كان مؤولا لا يفسق ولا يضلل؛ لأن التأويل في مظانه من سيرة السلف، وإلا فإن كان مستخفا يضلل؛ لأنه رد خبر الواحد والقياس بدعة، وإن لم يكن مؤولا ولا مستخفا يفسق لخروجه عن الطاعة بترك ما وجب عليه. اهـ."

( كتاب الطهارة، اركان الوضوء، ١ / ٩٥، ط: دار الفكر)

ب۔  داڑھی کے  وجوب  کا ثبوت  رسول صلی  اللہ  علیہ وسلم کے فرامین کی عبارة النص  سے  اصالۃً ہوتاہے، جبکہ  اس کا وجوب  قرآن مجید کے اشارة النص و اقتضاء النص سے  بھی ثابت  ہے۔

یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت کے ساتھ داڑھی بڑھانے کا حکم فرمایا ہے، اور اسے تمام انبیاء کی سنت قرار دیا ہے،  شرعی ضابطہ ہے کہ امر  ( اللہ و اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم) وجوب کے  لیے ہوتا ہے، الا یہ کہ  کسی اور نص کی وجہ سے امر کا استحباب کے  لیے ہونا ثابت ہوجائے۔

أصول السرخسی میں ہے:

"فأما الكلام في موجب الأمر فالمذهب عند جمهور الفقهاء أن موجب مطلقه الإلزام إلا بدليل... أما الواقفون فيقولون قد صح استعمال هذه الصيغة لمعان مختلفة كما بينا فلا يتعين شيء منها إلا بدليل لتحقق المعارضة في الاحتمال وهذا فاسد جدا فإن الصحابة امتثلوا أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم كما سمعوا منه صيغة الأمر من غير أن اشتغلوا بطلب دليل آخر للعمل ولو لم يكن موجب هذه الصيغة معلوما بها لاشتغلوا بطلب دليل آخر للعمل ولا يقال إنما عرفوا ذلك بما شاهدوا من الأحوال لا بصيغة الأمر لأن من كان غائبا منهم عن مجلسه اشتغل به كما بلغه صيغة الأمر حسب ما اشتغل به من كان حاضرا ومشاهدة الحال لا توجد في حق من كان غائبا وحين دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم أبي بن كعب رضي الله عنه فأخر المجيء لكونه في الصلاة فقال له أما سمعت الله يقول {استجيبوا لله وللرسول} فاستدل عليه بصيغة الأمر فقط وعرف الناس كلهم دليل على ما قلنا فإن من أمر من تلزمه طاعته بهذه الصيغة فامتنع كان ملاما معاتبا ولو كان المقصود لا يصير معلوما بها للاحتمال لم يكن معاتبا

ثم كما أن العبارات لا تقصر عن المعاني فكذلك كل عبارة تكون لمعنى خاص باعتبار أصل الوضع ولا يثبت الاشتراك فيه إلا بعارض وصيغة الأمر أحد تصاريف الكلام فلا بد من أن يكون لمعنى خاص في أصل الوضع ولا يثبت الاشتراك فيه إلا بعارض مغير له بمنزلة دليل الخصوص في العام

ومن يقول بأن موجب مطلق الأمر الوقف لا يجد بدا من أن يقول موجب مطلق النهي الوقف أيضا للاحتمال فيكون هذا قولا باتحاد موجبهما وهو باطل وفي القول بأن موجب الأمر الوقف إبطال حقائق الأشياء ولا وجه للمصير إليه والاحتمال الذي ذكروه نعتبره في أن لا نجعله محكما بمجرد الصيغة لا في أن لا يثبت موجبه أصلا ألا ترى أن من يقول لغيره إن شئت فافعل كذا وإن شئت فافعل كذا كان موجب كلامه التخيير عند العقلاء واحتمال غيره وهو الزجر قائم كما قال الله تعالى {فمن شاء فليؤمن ومن شاء فليكفر}

وأما الذين قالوا موجبه الإباحة اعتبروا الاحتمال لكنهم قالوا من ضرورة الأمر ثبوت صفة الحسن للمأمور به فإن الحكيم لا يأمر بالقبيح فيثبت بمطلقه ما هو من ضرورة هذه الصيغة وهو التمكين من الإقدام عليه والإباحة وهذا فاسد أيضا فصفة الحسن بمجرده تثبت بالإذن والإباحة وهذه الصيغة موضوعة لمعنى خاص فلا بد أن تثبت بمطلقها حسنا بصفة ويعتبر الأمر بالنهي فكما أن مطلق النهي يوجب قبح المنهي عنه على وجه يجب الانتهاء عنه فكذلك مطلق الأمر يقتضي حسن المأمور به على وجه يجب الائتمار

والذين قالوا بالندب ذهبوا إلى أن الأمر لطلب المأمور به من المخاطب وذلك يرجح جانب الإقدام عليه ضرورة

وهذا الترجيح قد يكون بالإلزام وقد يكون بالندب فيثبت أقل الأمرين لأنه المتيقن به حتى يقوم الدليل على الزيادة وهذا ضعيف فإن الأمر لما كان لطلب المأمور به اقتضى مطلقه الكامل من الطلب إذ لا قصور في الصيغة ولا في ولاية المتكلم فإنه مفترض الطاعة بملك الإلزام

ثم إما أن يكون الأمر حقيقة في الإيجاب خاصة فعند الإطلاق يحمل على حقيقة أو يكون حقيقة في الإيجاب والندب جميعا فيثبت بمطلقه الإيجاب لتضمنه الندب والزيادة لا يجوز أن يقال هو للندب حقيقة وللإيجاب مجازا لأن هذا يؤدي إلى تصويب قول من قال إن الله لم يأمر بالإيمان ولا بالصلاة وبطلان هذا لا يخفى على ذي لب."

( فصل في بيان موجب الأمر الذي يذكر في مقدمة هذا الفصل، ص: ١٦ - ١٧، ط: دار المعرفة - بيروت)

دوسری طرف قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے امت مسلمہ کو پابند کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس بات کا حکم فرمائیں، اسے من و عن مانو، اور جس سے  روکیں اس سے باز رہو،  جس کا تقاضہ یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی بڑھانے کا حکم فرمادیا، اور اس حکم  کے معارض نہ کوئی دوسرا حکم فرمایا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ساری زندگی اس کے خلاف  بھی نہیں رہا ، تو  ثابت ہوا کہ داڑھی رکھنا امر اختیاری نہیں، بلکہ امر وجوبی ہے۔

پس داڑھی رکھنے کا وجوب احادیث سے صحیحہ ، تواتر عملی  اور اجماع امت سے  ہونے کے ساتھ قرآن مجید کے اقتضاء النص سے بھی ہے،  یعنی از روئے قرآن مجید ؛  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے  فرامین کا ماننا ہر مسلمان پر فرض ہے،  اسی طرح سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ و حکم  کے آگے اپنی عقل کے گھوڑے  دوڑانا از  روئے قرآن مجید ممنوع ہے، یعنی جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کسی کام کا حکم فرمادیں، تو اس کی تعمیل بنص قرآنی لازم ہوجاتی ہے، اور مسلمان سے اس کام کے کرنے ، یا  نا کرنے کا اختیار بنص قرآنی سلب ہوجاتا ہے، پس جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی رکھنے کا بذات خود حکم فرمادیا،  ( جو کہ صحیح سند سے ثابت ہے، اور اس پر تواتر عملی ہے  ) تو اب داڑھی رکھنے یا  نا رکھنے کا اختیار بنص قرآنی سلب ہوچکا ہے۔

نیز آپ علیہ الصلاة والسلام نے بذات خود داڑھی رکھ کر اس کا عملی نمونہ بھی امت محمدیہ کے عمل کے لئے   پیش فرمایا ہے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل کی پیروی کا حکم خود باری تعالی نے قرآن مجید میں دیا ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں داڑھی کے وجوب کا انکار کرنا حکم کو غیر ثابت شدہ قرار دینا، یا وجوب کے ثبوت کے لئے  قرآن مجیدکی عبارة النص کی شرط لگاناکم علمی کی علامت ہے، جس کی فوری  اصلاح کرنا ضروری ہے، کیوں کہ اللہ کے رسول کے حکم کے خلاف کرنے پر قرآن مجید میں سخت وعیدات وارد ہوئی  ہیں، اور دوسری طرف  کم علمی و کوتاہی پر صدق دل سے توبہ و استغفار   کرنا چاہیئے۔ 

ارشاد باری تعالی ہے:

"وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ."( الحشر : ٧)

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں جو کچھ بھی حکم دیں، اس کی بجا آوری کرو، اور جس سے منع کردیں، اس سے باز رہو، اللہ سے ڈرتے رہو،  بیشک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے"

مفسرین نے لکھا ہے  کہ احکم الحاکمین نے  اتباع رسول اللہ علیہ وسلم کے لازم ہونے کے حوالہ سے مذکورہ آیت میں  ایک کلی  ضابطہ   بیان کردیا ہے، پس اس ضابطہ سے سر مو انحراف کی اجازت نہیں۔

تفسیر السعدی میں ہے:

" فقال: {وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا} وهذا شامل لأصول الدين وفروعه، ظاهره وباطنه، وأن ما جاء به الرسول يتعين على العباد الأخذ به واتباعه، ولا تحل مخالفته، وأن نص الرسول على حكم الشيء كنص الله تعالى، لا رخصة لأحد ولا عذر له في تركه، ولا يجوز تقديم قول أحد على قوله، ثم أمر بتقواه التي بها عمارة القلوب والأرواح [والدنيا والآخرة]، وبها السعادة الدائمة والفوز العظيم، وبإضاعتها الشقاء الأبدي والعذاب السرمدي."( الحشر : ٧)

تفسیر القرطبی میں ہے:

" وقال ابن جريج : ما آتاكم من طاعتي فافعلوه ، وما نهاكم عنه من معصيتي فاجتنبوه . الماوردي : وقيل إنه محمول على العموم في جميع أوامره ونواهيه ; لا يأمر إلا بصلاح ولا ينهى إلا عن فساد .

قلت : هذا هو معنى القول الذي قبله . فهي ثلاثة أقوال .

قال المهدوي : قوله تعالى : وما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا هذا يوجب أن كل ما أمر به النبي صلى الله عليه وسلم أمر من الله تعالى . والآية وإن كانت في الغنائم فجميع أوامره صلى الله عليه وسلم ونواهيه دخل فيها . وقال الحكم بن عمير - وكانت له صحبة - قال النبي صلى الله عليه وسلم : " إن هذا القرآن صعب مستصعب عسير على من تركه ، يسير على من اتبعه وطلبه ، وحديثي صعب مستصعب وهو الحكم ، فمن استمسك بحديثي وحفظه نجا مع القرآن ، ومن تهاون بالقرآن وحديثي خسر الدنيا والآخرة . وأمرتم أن تأخذوا بقولي وتكتنفوا أمري وتتبعوا سنتي ، فمن رضي بقولي فقد رضي بالقرآن ، ومن استهزأ بقولي فقد استهزأ بالقرآن " قال الله تعالى : وما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا .

قال عبد الرحمن بن زيد : لقي ابن مسعود رجلا محرما وعليه ثيابه فقال له : انزع عنك هذا . فقال الرجل : أتقرأ علي بهذا آية من كتاب الله تعالى ؟ قال : نعم ، وما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا . وقال عبد الله بن محمد بن هارون الفريابي : سمعت الشافعي رضي الله عنه يقول : سلوني عما شئتم أخبركم من كتاب الله تعالى وسنة نبيكم صلى الله عليه وسلم ; قال : فقلت له : ما تقول - أصلحك الله - في المحرم يقتل الزنبور ؟ قال : فقال : بسم الله الرحمن الرحيم ، قال الله تعالى : وما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا وحدثنا سفيان بن عيينة عن عبد الملك بن عمير عن ربعي بن حراش عن حذيفة بن اليمان قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " اقتدوا باللذين من بعدي أبي بكر وعمر " . حدثنا سفيان بن عيينة  عن مسعر بن كدام عن قيس بن مسلم عن طارق بن شهاب عن عمر بن الخطاب - رضي الله عنه - أنه أمر بقتل الزنبور . قال علماؤنا: وهذا جواب في نهاية الحسن ، أفتى بجواز قتل الزنبور في الإحرام ، وبين أنه يقتدي فيه بعمر ، وأن النبي صلى الله عليه وسلم أمر بالاقتداء به ، وأن الله سبحانه أمر بقبول ما يقوله النبي صلى الله عليه وسلم ; فجواز قتله مستنبط من الكتاب والسنة . وقد مضى هذا المعنى من قول عكرمة حين سئل عن أمهات الأولاد فقال : هن أحرار في سورة " النساء " عند قوله تعالى : أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولي الأمر منكم . وفي صحيح مسلم وغيره عن علقمة عن ابن مسعود قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لعن الله الواشمات والمستوشمات ، والمتنمصات ، والمتفلجات للحسن المغيرات خلق الله " . فبلغ ذلك امرأة من بني أسد يقال لها أم يعقوب ; فجاءت فقالت : بلغني أنك لعنت كيت وكيت ! فقال : وما لي لا ألعن من لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو في كتاب الله ! فقالت : لقد قرأت ما بين اللوحين فما وجدت فيه ما تقول . فقال : لئن كنت قرأتيه لقد وجدتيه ! أما قرأت وما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا ! قالت : بلى . قال : فإنه قد نهى عنه . . . . . الحديث . وقد مضى القول فيه في " النساء " مستوفى .

قوله تعالى : وما آتاكم الرسول فخذوه وإن جاء بلفظ الإيتاء وهو المناولة فإن معناه الأمر .

وما نهاكم عنه فانتهوا فقابله بالنهي ، ولا يقابل النهي إلا بالأمر ; والدليل على فهم ذلك ما ذكرناه قبل مع قوله عليه الصلاة والسلام : " إذا أمرتكم بأمر فأتوا منه ما استطعتم ، وإذا نهيتكم عن شيء فاجتنبوه ."

سورہ احزاب میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:

" وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا."(الاحزاب:٣٦)

ترجمہ:

" اور کسی ایمان دار مرد اور کسی ایمان دار عورت کو گنجائش نہیں جبکہ اللہ اور اس کا رسول کسی کام کا (گو وہ دنیا ہی کی بات کیوں نہ ہو وجوباً ) حکم دے دیں کہ (پھر) ان (مومنین) کو ان کے اس کام میں کوئی اختیار (باقی) رہے (یعنی اس اختیار کی گنجائش نہیں رہتی کہ خواہ کریں یا نہ کریں بلکہ عمل ہی کرنا واجب ہوجاتا ہے) اور جو شخص (بعد حکم وجوبی کے) اللہ کا اور اس کے رسول کا کہنا نہ مانے گا وہ صریح گمراہی میں پڑا۔ "

  ( معارف القرآن از مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ )

تفسير السعدی میں ہے:

" أي: لا ينبغي ولا يليق، ممن اتصف بالإيمان، إلا الإسراع في مرضاة اللّه ورسوله، والهرب من سخط اللّه ورسوله، وامتثال أمرهما، واجتناب نهيهما، فلا يليق بمؤمن ولا مؤمنة {إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًاْ} من الأمور، وحتَّما به وألزما به {أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ْ} أي: الخيار، هل يفعلونه أم لا؟ بل يعلم المؤمن والمؤمنة، أن الرسول أولى به من نفسه، فلا يجعل بعض أهواء نفسه حجابًا بينه وبين أمر اللّه ورسوله.

{وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا ْ} أي: بَيِّنًا، لأنه ترك الصراط المستقيم الموصلة إلى كرامة اللّه، إلى غيرها، من الطرق الموصلة للعذاب الأليم، فذكر أولاً السبب الموجب لعدم معارضته أمر اللّه ورسوله، وهو الإيمان، ثم ذكر المانع من ذلك، وهو التخويف بالضلال، الدال على العقوبة والنكال."

سورہ آل عمران میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:

" قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ." (آل عمران: ٣١)

ترجمہ :

"  کہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت کے دعوایدار ہو تو میری پیروی کرو، تو اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا، اور تمہارے گنہاہوں کو بخش دے گا، اور اللہ عفور الرحیم ہے"۔

مفسرین نے لکھا ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنی  محبت  کا مدار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر عمل و حکم کی پیروی کرنے پر رکھا ہے،  پس جو رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع نہیں کرے گا، وہ اللہ کی محبت و مغفرت کے حصول سے محروم رہے گا۔

تفسير السعدی میں ہے:

"وهذه الآية فيها وجوب محبة الله، وعلاماتها، ونتيجتها، وثمراتها، فقال {قل إن كنتم تحبون الله} أي: ادعيتم هذه المرتبة العالية، والرتبة التي ليس فوقها رتبة فلا يكفي فيها مجرد الدعوى، بل لابد من الصدق فيها، وعلامة الصدق اتباع رسوله صلى الله عليه وسلم في جميع أحواله، في أقواله وأفعاله، في أصول الدين وفروعه، في الظاهر والباطن، فمن اتبع الرسول دل على صدق دعواه محبة الله تعالى، وأحبه الله وغفر له ذنبه، ورحمه وسدده في جميع حركاته وسكناته، ومن لم يتبع الرسول فليس محبا لله تعالى، لأن محبته لله توجب له اتباع رسوله، فما لم يوجد ذلك دل على عدمها وأنه كاذب إن ادعاها، مع أنها على تقدير وجودها غير نافعة بدون شرطها، وبهذه الآية يوزن جميع الخلق، فعلى حسب حظهم من اتباع الرسول يكون إيمانهم وحبهم لله، وما نقص من ذلك نقص." ( آل عمران: ٣١ )

اسی طرح سے داڑھی رکھنا از روئے احادیث صحیحہ فطری و خلقی  چیز ہے، اور اسے کاٹنا خلقت میں دست درازی  و تبدیلی کے زمرے میں آتا ہے، اور خلقت میں تبدیلی کرنا  بنص قرآن مجید حرام ہے ، جس کی حرمت اشارة النص سے ثابت ہے، قرآن مجید میں احکم الحاکمین  نے  تغییر خلقِ اللہ یعنی انسانی اعضاء میں  اللہ تعالی کی بنائی ہوئی  تخلیق میں تبدیلیاں کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد ہے:

"﴿وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ اٰذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ وَمَنْ يَتَّخِذِ الشَّيْطٰنَ وَلِيًّا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُبِينًا﴾."

( النساء: ١١٩)

ترجمہ:

اور میں ان کو گم راہ کروں گا اور میں ان کو ہوسیں دلاؤں گا اور میں ان کو تعلیم دوں گا جس میں وہ چوپایوں کے کانوں کو تراشا کریں گے،  اور میں ان کو تعلیم دوں گا جس سے وہ اللہ تعالیٰ کی بنائی  ہوئی صورت کو بگاڑا کریں گے،   اور جو شخص خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا رفیق بناوے گا  وہ صریح نقصان میں واقع ہوگا۔

ج۔ واضح رہے کہ کسی فعل کے حرام ہونے کے لیے قرآنِ مجید یا احادیثِ نبویہ میں لفظِ حرام کہہ کر اس کا حکم ''حرام'' بیان کرنا ضروری نہیں ہے، بلکہ بعض مرتبہ اشارۃً ایک حکم مذکور ہوتاہے اور اس کا حکم حرام یا فرض کا درجہ رکھتاہے، قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں بیان کردہ احکام کے مراتب ودرجات جاننے کا ذریعہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین  اور ان کے شاگردوں (تابعین رحمہم اللہ) کی تشریحات ہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے آثار سے احکامِ اسلام کا مرتبہ متعین ہوجاتاہے، کیوں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے براہِ راست شاگرد، وحی کے نزول کے شاہد اور کمال درجہ شوق کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے دین کو سیکھنے سمجھنے والے ہیں، انہیں کسی فعل میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رخصت ملی تو بلا کم وکاست پوری امانت داری کے ساتھ امت تک رخصت والا وہ عمل بھی پہنچایاہے۔

پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  خود بھی داڑھی رکھی ،  تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے بھی داڑھی رکھی، اور اپنے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو داڑھی بڑھانے کاحکم دیا،پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی  صحابی رضی اللہ عنہ سے داڑھی صاف کرنا ثابت نہیں، ہاں بعض  صحابہ  کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں  اتنا آتاہے کہ وہ ایک مشت سے زائد  داڑھی کے بال کاٹ لیا کرتے تھے، اس سے کم داڑھی رکھنا کسی سے منقول نہیں  ہے۔

پس  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی بڑھانے کا  صاف اور دو ٹوک حکم فرمایا،  اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے  اس سے وجوب ہی سمجھا، تب ہی خود بھی شدت سے عمل کیا اور آنے والی امت کو یہی امانت حوالہ کرکے گئے، ان کے شاگرد اور شاگردوں کے شاگردوں نے وہی امانت امت تک پہنچائی ہے، انہوں نے دین کے مسائل خود سے نہ بنائے  ہیں اور نہ ہی خود سے احکام کے مراتب متعین کیے ہیں، فقہاءِ کرام رحمہم اللہ تب تک کسی چیز کا حکم اور اس حکم کا درجہ متعین نہیں کرتے تھے  جب تک کہ ان کے پاس قرآن وحدیث سے دلیل موجود نہ ہو، خواہ صراحتاً ہو یا اشارۃً۔

نیز  قرآنِ مجید اور احادیثِ نبویہ میں صراحتاً اور اشارۃً موجود ہے کہ  مسلمان اہلِ علم کا اجماع/ اتفاق مستقل حجتِ شرعیہ ہے، یعنی اگر قرآن وحدیث میں کوئی حکم صراحتاً موجود نہ ہو ،لیکن صحابہ کرام یا قرونِ اولیٰ کے اہلِ علم کسی آیت یا حدیث کی مراد پر متفق ہوجائیں تو یہ اجماع خود حجتِ شرعیہ ہے، اس اجماع سے ہی حکم کا درجہ متعین ہوجاتاہے، جب تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین وتبع تابعین  اورفقہاء مجتہدین رحمہم اللہ قرآن وحدیث سے کسی مسئلہ  (داڑھی صاف کرنے یا ایک مشت سے کم کرنے کی حرمت ) کا حکم سمجھ کر اس کے درجے  پر متفق ہوجائیں تو ان حضرات کا اجماع ہی اس کی حرمت کی دلیل ہوتی ہے، خواہ قرآن مجید اور احادیثِ نبویہ  میں صراحتاً حرمت   موجود بھی نہ ہو۔ جبکہ داڑھی بڑھانے کے وجوبی حکم  پر صراحتاً دلالت کرنے والی احادیث موجود ہیں، جن کی جانبِ مخالف (واجب کو ترک کرنا) حرام ہے، لہذا داڑھی کے وجوبی حکم کا انکار کرنا، اور اسے مباح قرار دینا، اور داڑھی کٹوانے کو حرام نہ سمجھنا فسق کی علامت ہے، جس پر صدق دل سے توبہ و استغفار واجب ہے۔

داڑھی کے شرعی حکم سے متعلق حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ کے افادات میں ہے: 

" داڑھی قبضہ (ایک مشت) سے کم کرانا حرام ہے، بلکہ یہ دوسرے کبیرہ گناہوں سے بھی بدتر ہے؛ اس لیے اس کے اعلانیہ ہونے کی وجہ سے اس میں دینِ اسلام کی کھلی توہین ہے اور اعلانیہ گناہ کرنے والے معافی کے لائق نہیں، اور داڑھی کٹانے کا گناہ ہر وقت ساتھ لگا  ہوا ہے،  حتی کے نماز وغیرہ عبادات  میں  مشغول ہونے کی حالت میں بھی اس گناہ میں مبتلا ہے "۔

( "ڈاڑھی منڈانا کبیرہ گناہ اور اس کا اس کا مذاق اڑانا کفر ہے"ص 10،مکتبہ حکیم الامت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100414

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں