بعض حفاظ اور قراء سورۃ الفاتحہ میں 'ولاالضالین' کی جگہ 'والدوالین' پڑھتے ہیں ،اور قرآن میں باقی جگہوں میں بھی 'ضاد' کی جگہ 'دال' پڑھتے ہیں، کیا یہ پڑھنے کا طریقہ درست ہے؟ آپ برائے کرم دلائل کے ساتھ جواب دیں ۔
حرفِ 'ضاد' کا ایک مستقل مخرج ہے نہ یہ 'دال' ہے ، نہ 'ظا'، اس لیے 'ضاد' کو اس کے درست مخرج اور مخصوص آواز کے مطابق پڑھنا لازمی ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص جان بوجھ کر، یا صحیح ادائیگی پر قدرت ہونے کے باوجود لاپرواہی کی بنا پر 'ولا الضالین' کو 'ولا الدوالین' پڑھے تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی، لیکن اگر غلطی سے زبان پھسل جانے کی وجہ سے ایسا پڑھ لیا تو نماز فاسد نہیں ہوگی، اور اگر کسی امام سے حرفِ 'ضاد' ادا ہی نہ ہوتا ہو اور باوجود کافی کوشش کے 'دال' یا اس جیسی آواز نکلتی ہو ، تو اس معذوری کی وجہ سے اس کے پیچھے نماز درست ہے، البتہ امام کو 'ضاد' کو صحیح مخرج سے نکالنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے، اور کسی ماہر قاری سےاس کی مشق کرنی چاہیے۔
مفتی شفیع عثمانی صاحب ؒ فرماتے ہیں:
"خلاصہ فتوی: الغرض حرفِ ضاد اپنے مخرج وصفات کے اعتبار سے ظاءِ خالص اور دالِ پُر دونوں سے بالکل جدا ایک مستقل حرف ہے ، اس کو جس طرح دال سے بدل کر ( عوام کی طرح) پڑھناغلطی ہے، اسی طرح ظاءِ خالص سے بدل کر ( بعض قراء زمانہ کی طرح) پڑھنا بھی غلطی صریح ہے ۔ لیکن فسادِنماز کے بارے میں فتوی اس پر ہے ، کہ اگر جان بوجھ کر یا بے پرواہی سے ،با وجودقا در بالفعل ہونے کے ایسا تغیر کر لے کہ ضاد کی جگہ دال یا ظاءِ خالص پڑھے ، تو نماز فاسد ہو جائے گی ۔ اور اگر بوجہِ نا واقفیت اور عدم ِتمیز ایسا سرزد ہو جاۓ ، اور وہ اپنے نز دیک یہی سمجھے کہ میں نے حرف ضاد پڑ ھا ہے ،تو نماز صحیح ہو جاۓ گی ۔
جس کا حاصل یہ ہوا کہ عوام کی نماز تو بلاکسی تفصیل و تنقیح کے بہر حال صحیح ہو جاتی ہے، خواہ ظاء پڑھیں یا دال یا زاء وغیرہ ، کیونکہ وہ قادر بھی نہیں ، اور سمجھتے بھی یہی ہیں کہ ہم نے اصلی حرف ادا کیا ہے ، اور قراء مجودین اور علماء کی نماز کے جواز میں تفصیل مذکور ہے، کہ اگر غلطی قصد اًیا بے پروائی سے ہو تو نماز فاسد ہے، اور سبقتِ لسانی یا عدمِ تمیر کی وجہ سے ہو تو جائز صحیح ہے۔"
(جواہر الفقہ، ج:3، ص:36، ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)
باقی کسی بھی حافظ یا امام کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا کہ وہ "ض" کو "ضاد" پڑھتا ہے یا "دال" اس کے لیے کسی مجوّد قاری کے پاس لے جا کر اس کی قراءت کو سنائے تا کہ یہ معلوم ہو کہ وہ واقعی کیا پڑھتا ہے، اور غیر قاری کو اس بارے میں فیصلہ دینے کا حق نہیں ہے۔
رد المحتار میں ہے:
"قال في الخانية والخلاصة: الأصل فيما إذا ذكر حرفا مكان حرف وغير المعنى إن أمكن الفصل بينهما بلا مشقة تفسد، وإلا يمكن إلا بمشقة كالظاء مع الضاد المعجمتين والصاد مع السين المهملتين والطاء مع التاء قال أكثرهم لا تفسد. اهـ. وفي خزانة الأكمل قال القاضي أبو عاصم: إن تعمد ذلك تفسد، وإن جرى على لسانه أو لا يعرف التمييز لا تفسد، وهو المختار. حلية وفي البزازية: وهو أعدل الأقاويل، وهو المختار اهـ."
(كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة و ما يكره فيها، ج:1، ص:633، ط:ايچ ايم سعيد)
فقط واللہ اعلم
مزید تفصیل کے لیےدیکھیں:
کیا و لا الضالین کو ولا الدالین پڑھ سکتے ہیں؟
فتوی نمبر : 144309100677
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن