بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا گیم میں موجود پلیئر سے نماز پڑھوانے سے انسان کی نماز ادا ہو جائے گی؟


سوال

میں نے بنوری ٹاؤن کا پب جی کے متعلق فتوی پڑھا جس سے یہ سمجھ میں آیا کہ پلیئر جو ہے وہ کھیلنے والے کا عکاس ہے اور اس کے اختیار میں ہے تو کیا کھیلنے والا اس پلیئر سے بالفرض نماز ادا کروائے تو نماز بھی ادا ہوجائے گی؛ کیوں کہ وہ اس کا ترجمان ہے؟

جواب

پب جی گیم کے سانہاک موڈ میں گیم کھیلنے والا جب  مورتیوں کے سامنے پہنچتا تو اس پر یہ ہدایت لکھی آتی:

Invoke

جس کا مفہوم ہے: ’’دعا کرو‘‘، دعا کا جو انداز اختیار کرایا جاتا ہے، وہ اس بت کو ماننے والوں کی عبادت کا مخصوص انداز ہے، اس کے بعد جب پلیئر بت کی پوجا کرلیتا ہے تو درج ذیل جملوں میں سے کوئی جملہ لکھا آتا ہے:

The totem recovers your vitality.

The totem recovers your energy.

The totem renews your armor.

The totem has expended all its energy and cannot grant any blessings.

درج بالا  جملوں کا ترجمہ درج ذیل ہے:

 کلدیوتا آپ کی جان بچاتا ہے۔

کلدیوتا آپ کی توانائی کو بازیافت کرتا ہے۔

کلدیوتا آپ کے کوچ / اسلحہ کی تجدید کرتا ہے۔

کلدیوتا نے اپنی ساری توانائی خرچ کردی ہے اور کوئی برکت و خوشی نہیں دے سکتا ہے۔

مذکورہ بالا تمام جملے شرکیہ ہیں، جن کو تسلیم کرنا کفر ہے،  اور کھیلنے والا گیم میں انرجی، پاور  و اسلحہ کی مقدار میں اضافہ کی خاطر بالقصد اس شرکیہ عمل کو اس لیے اختیار کرتا ہے کہ اس عمل کے ذریعہ اسے انرجی، پاور اور اسلحہ کی مقدار میں اضافہ حاصل ہوجائے گا، اور یہی دائرہ اسلام سے خارج ہونے کا باعث ہے۔

اس کی تفصیل یہ ہے کہ گیم کے اندر پلئیر  چوں کہ خود کوئی عمل تو نہیں کر سکتا، بلکہ کھیلنے والا انسان ہی کلک کر کے اپنے پلیئر کو مورتیوں کے سامنے جھکاتا ہے، اس لیے یہ کہا جائے گا کہ  کھیلنے والا انسان  اپنے پلیئر کو بت کے سامنے  خود جھکا رہا ہے، مزید برآں شرکیہ جملے ظاہر ہونے کے باوجود وہ اسے معمولی کھیل اور تفریح سمجھ رہا ہے، بلکہ ان  جملوں کو تسلیم کررہاہے، گویا یہاں کئی وجوہات ہیں، مثلاً: ایسا عمل کرنا جو علامتِ شرک ہے، ایمان و کفر کے معاملے کو خفیف سمجھنا، کفریہ کام پر راضی ہونا وغیرہ۔ گو یہ سب وجوہات ہر گیم کھیلنے والے کے ذہن میں نہ ہوں، لیکن ایسا عمل کرنا جو علامتِ شرک ہے، وہ ہر اس گیم کھیلنے والے سے سرزد ہوا ہے جس نے اپنے پلیئر کو بت کے سامنے جھکایا ہے۔  ان وجوہات کے پیشِ نظر فتویٰ جاری کیا گیا ہے۔

جہاں تک بات ہے مقاصدِ شریعت اور اُصولِ دین کی، فی  الوقت ان سے قطع نظر کرتے ہوئے کہ گیم بنانے کے نظریاتی و تربیتی مقاصد کیا ہوسکتے ہیں؟ اور کسی ویڈیو گیم بنانے، اور اس میں شامل نقشوں کے مقاصد کیا ہوتے ہیں، جن میں سے بعض کی طرف  گیم کے دوران یا راونڈز کی تکمیل پر ظاہر ہونے والے جملوں اور علامات سے اشارہ بھی ہوسکتاہے؟  اور یہ کہ اگر کسی گیم کا کوئی راؤنڈ کھیلنے کا مقصد ہی کسی مندر کو بازیاب کرانا  ہو، یا کسی گیم کھیلنے کے نتیجے میں اسلامی شعائر کی اہمیت دل سے نکلنے کا مشاہدہ ہو یا دینی اَحکام کی بے توقیری لازم آتی ہو، یا اس کے علاوہ کوئی فاسد مقصد و نتیجہ نکلتاہو تو اس کا کیا حکم ہوگا؟ یہاں ان تمام امور سے صرفِ نظر کرتے ہوئے، دائرۂ اسلام سے خروج کی مذکورہ بالا وجوہات بادی النظر میں معمولی غور و فکر کے نتیجے میں واضح ہیں۔

بہر حال ایمان و کفر کا معاملہ انتہائی حساس اور خطرناک ہے، جیسے کسی مؤمن کی تکفیر انتہائی مذموم ہے، اور اس پر وعیدیں آئی ہیں، اور فقہاءِ کرام نے لکھا ہے کہ کسی کی بات کے سو احتمالات میں سے ننانوے کفر کو ترجیح دیں اور ایک ایمان کو، تو ترجیح ایمان کی جانب کو ہوگی، اسی طرح بعض اعمال و اقوال اور مواقع ایسے ہیں کہ وہ کفر و شرک کی علامت ٹھہرائے گئے ہیں، اس لیے کفر کی نیت سے نہ  کیے جائیں تو بھی کفر لازم آجاتاہے، اور بعض مرتبہ استہزا (مذاق) یا استخفاف (معمولی اور ہلکا سمجھنے) کی وجہ  سے کفر لازم آتاہے، (جیساکہ فتاویٰ شامی کی درج ذیل عبارت میں اس کی مثالیں مذکور ہیں) اور بعض اقوال یا عقائد ایسے ہیں کہ ان میں تاویل قبول ہی نہیں ہوتی، اگرچہ ہزار احتمالات اس میں نکالے جائیں، اس لیے فقہاءِ کرام نے مذکورہ قاعدے کی تکمیل میں یہ بھی لکھا ہے کہ وہی احتمال اور تاویل قبول ہوگی جس کی گنجائش دین و شریعت کے اصول میں موجود ہو، جو بات ضروریاتِ دین سے ٹکراتی ہو وہاں تاویل بھی قبول نہیں ہوگی، اسی طرح وہی تاویل قبول ہوگی جو تاویل بن سکتی ہو، زبردستی اسے تاویل نہ بنایا جائے۔

یہاں تک تو مذکورہ فتوے کی وجوہات کی وضاحت ہے، جہاں تک سائل کے اشکال کا جواب ہے اس کے لیے یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ:

1- ہر عمل کی نوعیت تحقق کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے، بعض اعمال کا تحقق  خارج اور نفس الامر میں اعمال کی مخصوص شکل انجام دینے سے ہوتاہے، جیسے نماز، اب جب تک انسان اپنے اعضاء سے ارکانِ مخصوصہ کو ادا نہیں کرے گا اس وقت تک نمازی نہیں کہلائے گا۔ اور بعض اعمال کا تعلق محض دل اور اُس کے عقیدے کے ساتھ ہوتا ہے، مثلاً: کوئی شخص دل میں کفریہ عقیدہ رکھے تو ظاہری طور پر کفریہ عمل کیے بغیر بھی وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کافر شمار ہوگا۔ 

2- مورتی کے سامنے جھکنا یہ شرکیہ عمل ہے، خواہ اس میں عبادت کی نیت ہو یا نہیں؛ کیوں کہ بت کی تعظیم علامتِ شرک  ہے، اور ہمیں باطل معبودوں کی تعظیم سے روکا گیا ہے، بلکہ یہ تو قابلِ اہانت ہیں، اس کے سامنے تعظیم کا کوئی بھی انداز اختیار کرنا، خواہ خود حقیقتًا جھکے یا اپنے اختیار سے گیم میں پلیئر کو جھکائے، اس میں بت کی تعظیم پائی گئی، جو کہ شرک ہے۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ عبادت و تعظیم صرف سجدے کا نام نہیں ہے، کسی کے سامنے جھکنا بھی تعظیم ہے، کسی کے گرد طواف کرنا بھی تعظیم ہے، کسی کی رضا کی خاطر قربانی کرنا یا روزہ رکھنا بھی عبادت و تعظیم ہے، یہاں تک کہ کسی کو کسی بھی حوالے سے عظمت و احترام کا ایسا حق دینا جو اللہ تعالیٰ کا حق ہے، یہ شرک و کفر ہے، جیساکہ قرآنِ پاک کی آیات اور احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے۔

3- عبادت جو کہ معبودِ حقیقی کا حق ہے، غیر اللہ کو اس کے قابل سمجھنا، یا از راہِ تفریح اعمال اور علاماتِ عبادت کا اظہار غیر اللہ کے سامنے کرنا، یہ عبادت اور خدا تعالیٰ کے حق کے ساتھ استخفاف یعنی اسے معمولی سمجھنا اور ایمانیات کا مذاق بنانا ہے۔

4- اپنے اختیار سے شرکیہ عمل کرنا یا اس کی نقل کرنا اگر دل کی رضامندی سے ہو تو وہ کفریہ عمل پر راضی ہونا ہے، ورنہ علامتِ رضا ہے۔

ان وجوہات کی وجہ سے مذکورہ صورت میں شرک لازم آتاہے، جب کہ  نماز ارکانِ مخصوصہ کی ادائیگی کا نام ہے، جب تک انسان خود اُن ارکان کو ادا نہیں کرے گا نماز ادا نہیں ہو گی۔

اسی طرح اگر کفر کا فتویٰ دینے میں انتہائی احتیاط سے کام لینے کا حکم ہے حتیٰ کہ اگر ننانوے احتمال کفر کے ہوں اور ایک احتمال عدمِ کفر کا ہو تو حکم ہے کہ کفر کا فتویٰ نہ دیا جائے، لیکن یہ حکم بھی اُس وقت ہے کہ جب اُس احتمال   کو بنیاد بنا کر کسی شخص کو مسلمان قرار دینا ممکن ہو، لیکن اگر ایسا کوئی احتمال ہی نہ ہو اور دوسری طرف افعالِ شرکیہ کا تحقق  واضح طور پر پایا جاتا ہو تو ایسی صورت میں کفر کا فتویٰ ہی متعین ہوتا ہے، نیز احتیاط کا مقتضیٰ بھی یہ ہی ہے کہ انسان تجدیدِ ایمان اور (شادی شدہ ہونے کی صورت میں) تجدیدِ نکاح  کر لے۔

پھر جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی سے جاری کردہ فتوے کا مقصد غفلت کا شکار ان لوگوں کی بر وقت شرعی راہ نمائی کرنا تھا جو لاعلمی میں اس کے مرتکب ہوگئے، از راہِ خیرخواہی انہیں بتایا گیا کہ اس طرح کے اعمال ایمان کے لیے خطرہ ہوتے ہیں، لہٰذا اس سے رجوع کریں، اور ایمان کی تجدید کرلیں تاکہ وہ دائرۂ ایمان و اسلام میں رہیں، گویا ان کے ایمان و اسلام کی حفاظت پیشِ نظر ہے، انہیں دائرۂ اسلام سے خارج نہیں ہونے دینا، اس لیے تجدیدِ ایمان کرکے لوٹنے کا حکم بتایا گیا۔

انسان کسی بھی وقت نفس و شیطان کے حملوں کا شکار ہوسکتاہے، انصاف پسندی کا تقاضا یہی ہے کہ انسان سے کبھی غفلت ہو اور کوئی بروقت مخلصانہ تنبیہ کرے تو فورًا رجوع کرے، توبہ و استغفار کرے، نہ کہ اسے اپنی مخالفت یا دشمنی سمجھے، اور اہلِ حق علماء کرام کی یہ ذمہ داری  ہے، جسے الحمد للہ جامعہ کے مفتیانِ کرام نے پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ 

خلاصہ یہ کہ گیم سے کفر کا لزوم اپنے اختیار سے افعالِ شرک کی ادائیگی کروانا اور تسلیمِ کلماتِ شرکیہ ہے اور یہ موجبِ کفر ہے اور اسی پر کفر کی تعریف صادق آتی ہے جب کہ گیم میں موجود کھلاڑی سے نماز کے اشارہ کروانا نماز کی ادائیگی نہیں ہے  اور نہ ہی اس پر نماز کی تعریف صادق آتی ہے۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر جاری فتویٰ دیکھیے:

پب جی (PUBG) گیم مطلقًا عقائد سے محرومی کا سبب نہیں

پب جی گیم کھیلنے کا حکم

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (ج:4، ص:222، ط: دار الفكر-بيروت):

"(قوله: من هزل بلفظ كفر) أي تكلم به باختياره غير قاصد معناه، وهذا لاينافي ما مر من أن الإيمان هو التصديق فقط أو مع الإقرار لأن التصديق، وإن كان موجودا حقيقة لكنه زائل حكما لأن الشارع جعل بعض المعاصي أمارة على عدم وجوده كالهزل المذكور، وكما لو سجد لصنم أو وضع مصحفا في قاذورة فإنه يكفر، وإن كان مصدقا لأن ذلك في حكم التكذيب، كما أفاده في شرح العقائد، وأشار إلى ذلك بقوله للاستخفاف، فإن فعل ذلك استخفاف واستهانة بالدين فهو أمارة عدم التصديق ولذا قال في المسايرة: وبالجملة فقد ضم إلى التصديق بالقلب، أو بالقلب واللسان في تحقيق الإيمان أمور الإخلال بها إخلال بالإيمان اتفاقا، كترك السجود لصنم، وقتل نبي والاستخفاف به، وبالمصحف والكعبة. وكذا مخالفة أو إنكار ما أجمع عليه بعد العلم به لأن ذلك دليل على أن التصديق مفقود، ثم حقق أن عدم الإخلال بهذه الأمور أحد أجزاء مفهوم الإيمان فهو حينئذ التصديق والإقرار وعدم الإخلال بما ذكر بدليل أن بعض هذه الأمور، تكون مع تحقق التصديق والإقرار، ثم قال: ولاعتبار التعظيم المنافي للاستخفاف كفر الحنفية بألفاظ كثيرة، وأفعال تصدر من المنتهكين لدلالتها على الاستخفاف بالدين كالصلاة بلا وضوء عمدا بل بالمواظبة على ترك سنة استخفافًا بها بسبب أنه فعلها النبي صلى الله عليه وسلم زيادة أو استقباحها كمن استقبح من آخر جعل بعض العمامة تحت حلقه أو إحفاء شاربه اهـ. قلت: ويظهر من هذا أن ما كان دليل الاستخفاف يكفر به، وإن لم يقصد الاستخفاف لأنه لو توقف على قصده لما احتاج إلى زيادة عدم الإخلال بما مر لأن قصد الاستخفاف مناف للتصديق".

الاختيار لتعليل المختار (ج:4، ص:150، ط: مطبعة الحلبي - القاهرة):

 

"قال: (والكافر إذا صلى بجماعة أو أذن في مسجد، أو قال: أنا معتقد حقيقة الصلاة في جماعة يكون مسلمًا) لأنه أتى بما هو من خاصية الإسلام، كما أن الإتيان بخاصية الكفر يدل على الكفر، فإن من سجد لصنم أو تزيا بزنار أو لبس قلنسوة المجوس يحكم بكفره".

لسان الحكام (ص: 414):

"فصل فيما يكون كفرًا من المسلم ومالايكون

وينبغي للمسلم أن يتعوذ من ذلك ويذكر هذا الدعاء صباحًا ومساءً فإنه سبب للعصمة من هذه الورطة بوعد النبي صلى الله عليه وسلم وهو هذا "اللهم اني أعوذ بك أن أشرك بك شيئًا وأنا أعلم وأستغفرك مما لا أعلم".

ومنها اذا كان في المسألة وجوه توجب التكفير ووجه واحد يمنع فعلى المفتي أن يميل إلى ذلك الوجه.

الجاهل إذا تكلم بكلمة الكفر ولم يدر أنها كفر قال بعضهم: لايكون كافرًا ويعذر بالجهل. وقال بعضهم: يصير كافرًا.

ومنها من أتى بلفظة الكفر ولم يعلم أنها كفر إلا أنه أتى بها عن اختيار يكفر عند عامة العلماء خلافًا للبعض ولايعذر بالجهل."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203200237

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں