بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جمعہ کے اجتماعات پر پابندی اور اس صورت میں شرعی حکم


سوال

حکومت کی جمعہ پر پابندی اورحکم؟  نیز ان حالات میں ہمارے لیے جمعہ کا کیا حکم ہے؟

جواب

مساجد اللہ کا گھر، ایمان کی علامت اور شعائر اللہ میں سے ہیں، اور ان کی جماعت اسلام کا شعار ہے، اور شعائر اللہ کا قیام اسلامی حکومت کی شرعی اور آئینی ذمہ داری ہے؛ لہٰذا  ان کو بند کرنا اور جمعے پر پابندی لگانا شرعاً جائز نہیں ہے، ورنہ مسلم اور غیر مسلم میں کوئی فرق باقی نہیں رہے گا۔

اگر کسی ملک میں حکومتی سطح پر مساجد  بالکلیہ بند کردی جائیں تو  مقامی لوگوں کو چاہیے کہ وہ حکمت کے ساتھ انتظامیہ کواسلامی اَحکام کے بارے میں آگاہ کریں اور کوشش کریں کہ وہ پابندی ہٹادیں، اور جب تک پابندی رہے تو مسجد کی جماعت چھوٹ جانے کا عذر معتبر ہے، ایسی صورت میں کوشش کریں کہ گھر پر ہی باجماعت نماز کا اہتمام ہو۔

 اگر کسی ملک میں مساجد بالکلیہ بند ہوں یا بعض صحت مند افراد کو  جمعہ کی نماز میں شرکت سے روک دیا جائے تو انہیں چاہیے کہ وہ مساجد کے علاوہ جہاں چار یا چار سے زیادہ بالغ مرد جمع ہوسکیں  وہ اذنِ عام  (یعنی نماز پڑھنے والوں کی طرف سے دوسرے لوگوں کی  نماز میں شرکت کی ممانعت نہ ہو) کا خیال رکھتے ہوئے  جمعہ قائم کرنے کی کوشش کریں، جس جگہ جمعہ ادا کریں وہاں کا دروازہ کھلا رکھیں۔

باقی شہر، فنائے شہر یا قصبہ میں جمعہ کی نماز میں چوں کہ مسجد کا ہونا شرط نہیں ہے؛ لہٰذا امام کے علاوہ کم از کم تین بالغ مرد مقتدی ہوں تو  بھی جمعہ کی نماز صحیح ہوجائے گی؛ چناں چہ جمعہ کا وقت داخل ہونے کے بعد پہلی اذان دی جائے، سنتیں ادا کرنے کے بعد امام منبر یا کرسی وغیرہ پر بیٹھ جائے اور اس کے سامنے دوسری اذان دی جائے، پھر امام کھڑے ہوکر دو خطبے پڑھ کر دو رکعت نماز پڑھا دے،  چاہے گھر میں ہوں یا کسی اور جگہ جمع ہو کر پڑھ لیں۔ عربی خطبہ اگر یاد نہ ہو تو  کوئی خطبہ دیکھ کر پڑھے، ورنہ عربی زبان میں حمد و صلاۃ اور قرآنِ پاک کی چند آیات پڑھ کر دونوں خطبے دے دیں۔
  اگر شہر یا فنائے شہر یا قصبہ میں چار  بالغ افراد جمع نہ ہوسکیں  یا کسی وجہ سے جمعہ قائم نہ ہوسکے تو تو ظہر کی نماز  تنہا پڑھیں۔

جمعہ کے مسنون خطبہ کے لیے درج ذیل لنک پر فتویٰ ملاحظہ فرمائیں:

جمعہ کا خطبہ

نیز  جمعے کے خطبہ میں مسنون تو یہ ہے کہ اس میں اللہ تعالی کی حمد و ثناء، درود شریف اور قرآنی آیات اور احادیثِ نبویہ ہوں، لیکن اگر کسی نے خطبہ جمعہ میں صرف سورہ فاتحہ اور سورہ اخلاص پڑھ لی تو بھی جمعہ کا خطبہ ادا ہو جائے گا؛ کیوں کہ جمعے کے خطبے کا رکن ’’ذکر اللہ‘‘ اس میں پایا جاتاہے۔

حلبی کبیری میں ہے:

"وفي الفتاوی الغیاثیة: لوصلی الجمعة في قریة بغیر مسجد جامع والقریة کبیرة  لها قری وفیها وال وحاکم جازت الجمعة بنوا المسجد أو لم یبنوا … والمسجد الجامع لیس بشرط، ولهذا أجمعوا علی جوازها بالمصلی في فناء المصر". (ص؛551، فصل فی صلاۃ الجمعۃ، ط: سہیل اکیڈمی)

فتاوی شامی میں ہے:
"(و) السادس: (الجماعة) وأقلها ثلاثة رجال (ولو غير الثلاثة الذين حضروا) الخطبة (سوى الإمام) بالنص؛ لأنه لا بد من الذاكر وهو الخطيب وثلاثة سواه بنص {فاسعوا إلى ذكر الله} [الجمعة: 9]

(قوله: وأقلها ثلاثة رجال) أطلق فيهم فشمل العبيد والمسافرين والمرضى والأميين والخرسى لصلاحيتهم للإمامة في الجمعة، إما لكل أحد أو لمن هو مثلهم في الأمي والأخرس فصلحا أن يقتديا بمن فوقهما، واحترز بالرجال عن النساء والصبيان؛ فإن الجمعة لاتصح بهم وحدهم لعدم صلاحيتهم للإمامة فيها بحال، بحر عن المحيط (قوله: ولو غير الثلاثة الذين حضروا الخطبة) أي على رواية اشتراط حضور ثلاثة في الخطبة، أما على رواية عدم الاشتراط أصلاً أو أنه يكفي حضور واحد فأظهر (قوله: سوى الإمام) هذا عند أبي حنيفة ورجح الشارحون دليله، واختاره المحبوبي والنسفي، كذا في تصحيح الشيخ قاسم (قوله: بنص {فاسعوا} [الجمعة: 9]؛ لأن طلب الحضور إلى الذكر متعلقاً بلفظ الجمع وهو الواو يستلزم ذاكراً فلزم أن يكون مع الإمام جمع، وتمامه في شرح المنية". (2 / 151)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(و منها الإذن العام)  وهو أن تفتح أبواب الجامع فيؤذن للناس كافةً حتى أن جماعةً لو اجتمعوا في الجامع و أغلقوا أبواب المسجد على أنفسهم و جمعوا لم يجز، وكذلك السلطان إذا اراد أن يجمع بحشمه في داره، فإن فتح باب الدار و أذن إذنًا عامًّا جازت صلاته شهدها العامة أو لم يشهدوها، كذا في المحيط".  (الباب السادس عشر في صلاة الجمعة، ١/ ١٤٨، ط: رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے (2 / 151):
"(قوله: الإذن العام) أي أن يأذن للناس إذنًا عامًّا بأن لايمنع أحدًا ممن تصح منه الجمعة عن دخول الموضع الذي تصلى فيه، وهذا مراد من فسر الإذن العام بالاشتهار، وكذا في البرجندي إسماعيل، وإنما كان هذا شرطًا لأن الله تعالى شرع النداء لصلاة الجمعة بقوله: {فاسعوا إلى ذكر الله} [الجمعة: 9] والنداء للاشتهار، وكذا تسمى جمعة لاجتماع الجماعات فيها، فاقتضى أن تكون الجماعات كلها مأذونين بالحضور تحقيقًا لمعنى الاسم، بدائع".

وفیہ ایضا:

"( وكره ) تحريمًا ( لمعذور ومسجون ) ومسافر ( أداء ظهر بجماعة في مصر ) قبل الجمعة وبعدها لتقليل الجماعة وصورة المعارضة، وأفاد أن المساجد تغلق يوم الجمعة إلا الجامع، (وكذا أهل مصر فاتتهم الجمعة ) فإنهم يصلون الظهر بغير أذان ولا إقامة ولا جماعة ". (2/157دارالفکر بیروت)  فقط واللہ اعلم

تفصیل کے لیے درج ذیل عنوانات پر مشتمل فتاویٰ ملاحظہ کیجیے:

کرونا وائرس (corona virus) کی وجہ سے نمازِ جمعہ چھوڑنے کا حکم اور اس حوالے سے شرعی اَحکام کی راہ نمائی

کرونا وائرس اور باجماعت نمازوں پر پابندی!


فتوی نمبر : 144108200101

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں