بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جہیز کے مطالبے کا حکم


سوال

 میری پانچ بہنوں کا نکاح ہوا ہے ، جس میں کسی بہن کو جوڑے کی رقم اور جہیز کے علاوہ ، 20 تولے سونے کے زیورات اور کسی کو 18 تولہ سونے کے زیورات دیے ہیں،  ان اخراجات کے لیے میرے والد صاحب نے اپنی کمائی کے علاوہ سودی قرض بھی لیا تھا،  صرف ایک بہن کا نکاح شریعت کے مطابق ہوا تھا،  جوڑے کی رقم اور جہیز کے بغیر،  صرف مہمانوں کی دعوت کی گئی تھی،  2006 میں میرے والد کا انتقال ہوا تو میری والدہ نے 2007 میں میری آخری بہن کے نکاح کے اخراجات کے لیے دو ایکڑ زمین فروخت کرکے اور کچھ رقم قرض لےکر کل چار لاکھ پچاس ہزار روپے جوڑے کی رقم اور اسکوٹر کے لیے پچاس ہزار روپے  اور پندرہ تولہ سونے کے زیورات دینے کے علاوہ 500 باراتیوں کے کھانے کا انتظام بھی  کیا تھا،  اور اس وقت تمام ورثاء (6 بہنیں اور دو بھائی)  خاموش رہے اور کوئی اعتراض نہیں کیا، جب کہ والد صاحب وفات سے پہلے اس بہن کے لیے جوڑے کی مدمیں صرف ایک لاکھ دینے کی بات کررہے تھے،  اور وفات سے پہلے والد صاحب کی زبانی وصیت یہ تھی کہ جس بہن کا نکاح شریعت کے مطابق ہوا ہے اس کو کل جائداد میں سے دو سینٹ زمین دی جائے ،  اور بقیہ تمام جائداد ان کے دو لڑکوں کے درمیان برابر برابر تقسیم کردی جائے، چوں کہ دوسری بہنوں کو ان کے نکاح کے وقت جوڑے کی رقم اور زیورات اور جہیز کا سامان دے دیا تھا ، اس لیے ان کو کچھ نہ دینے کی بات کررہے تھے، تمام ورثاء از روئے رضامندی خاموش رہے ، کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا،  کیوں کہ ہر ایک کے نکاح کے وقت زمین فروخت کرنے کے علاوہ قرضہ بھی لیا گیا تھا جس کو والدہ نے وفات سے پہلے ادا بھی کردیا تھا اس زبانی وصیت اور مذکورہ حالات (جوڑے کی رقم،  سونے کے زیورات،  باراتیوں کی دعوتیں،  جہیز،  سامان کے لیے فروخت جائدادیں و سودی قرضے) کی وجہ سے ڈیڑھ ایکڑ زمین جوکہ 2006 میں والد صاحب کے انتقال کے بعد قانونی اعتبار سے والدہ کے نام ہوگئی تھی جس کو میری والدہ نے 2021 میں میرے دو بھائیوں کے درمیان برابر تقسیم کردیا اور دو سینٹ کا مکان اس بہن کے نام کردیا جس کا شریعت کے مطابق بغیر جہیز اور جوڑے کی رقم کے نکاح ہوا تھا۔

یہاں پر سوال یہ ہے کہ   :

1۔  اس ڈیڑھ ایکڑ زمین میں بقیہ وارثین کو کچھ حصہ ملے گا یا صرف دوبھائیوں کے درمیان والد کی زبانی وصیت کی بناء پر تقسیم ہوگا؟ کیوں کہ میرے شوہر کا کہنا ہے کہ تم بھی اس زمین میں سے اپنا حصہ مانگو اور اس پر قبضہ کرو، ورنہ تمھارے والد جہنم میں جائیں گے۔

 2) میرے شوہر نے 2002 میں میرے نکاح کے وقت ڈیڑھ لاکھ روپے جوڑے کی رقم کے لیے میرے والد سے لیے تھے،  وہ رشوت ہے یا نہیں؟  اس کے واپس نہ کرنے پر کیا وہ جہنم میں جائیں گے؟    کیا یہ جوڑے کی رقم،  زیورات اور جہیز کی ڈیمانڈ کرنا شریعت میں جائز ہے؟ 

جواب

1) صورتِ مسئولہ میں آپ کے مرحوم والد نے جس بیٹی کے لیےمذکورہ زمین  کی وصیت کی تھی اور جن بیٹوں کے لیے  تمام جائیداد کی وصیت کی تھی،  وہ وصیت دیگر ورثاء کی اجازت پر موقوف ہوگی، اگر  دیگر تمام ورثاء عاقل و بالغ ہوں اور انہوں نے اس وصیت کے نفاذ کی اجازت دے دی تو اسے نافذ کیا جائے گا،اور اگر ورثاء راضی نہ ہوں تو  اس وصیت پر عمل نہیں کیا جائے گا۔

2)اگروالدین اپنی رضامندی  و خوشی سے اپنی بیٹی کو رخصتی کے موقع پر جہیز دینا چاہے تو یہ شرعی طور پر ممنوع نہیں، بلکہ یہ رحمت اور محبت کی علامت ہے، ایسی صورت میں بیٹی کے لیے جہیز لینا جائز ہے،لیکن شریعت میں کہیں اس کی حوصلہ افزائی  نہیں کی گئی، تاہم  شادی بیاہ کے موقع  لڑکے والوں کا  لڑکی کے لیے جہیز کا  مطالبہ کرنا شرعا جائز نہیں ہے، اسی طرح شادی کے موقع پر لڑکی والے اپنے ہونے والے داماد کو اگر بغیر کسی قسم کے مطالبے کے سوٹ وغیرہ یا اس کی رقم بطور ہدیہ کے دیتے ہیں تو اس میں شرعا کوئی قباحت نہیں، لیکن لڑکے والوں کی طرف سے سوٹ یا کسی بھی چیز کا مطالبہ کرنا خواہ صراحۃً ہو یا دلالۃً شرعا جائز نہیں، بلکہ مطالبہ کر کے لینا رشوت کے زمرے میں آتا ہے جو کہ ناجائز اور حرام ہے۔

مزید تفصیل کےلیے درج ذیل  لنک ملاحظہ فرمائیں؛

منگنی وغیرہ کے موقع پر لڑکی والوں سے سامانِ جہیز و جوڑے کے نام پر رقم کا مطالبہ کرنا

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولا لوارثه وقاتله مباشرة)  (إلا بإجازة ورثته) لقوله  عليه الصلاة والسلام: «لا وصية لوارث إلا أن يجيزها الورثة» يعني عند وجود وارث آخر كما يفيده آخر الحديث  (وهم كبار) عقلاء فلم تجز إجازة صغير ومجنون وإجازة المريض كابتداء وصية ولو أجاز البعض ورد البعض جاز على المجيز بقدر حصته."

(کتاب الوصایا، ج:6،  ص: 655 ، ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولا تجوز الوصية للوارث عندنا إلا أن يجيزها الورثة، ولو أوصى لوارثه ولأجنبي صح في حصة الأجنبي ويتوقف في حصة الوارث على إجازة الورثة إن أجازوا جاز وإن لم يجيزوا بطل۔"

(الباب الاول فی تفسیر الوصیۃ وشرط جوازھا وحکمھا،ج:6،ص:90،ط:سعید)

الموسوعة الفقهية الكويتية  میں ہے:

"ذهب جمهور الفقهاء إلى أنه لا يجب على المرأة أن تتجهز بمهرها أو بشيء منه، وعلى الزوج أن يعد لها المنزل بكل ما يحتاج إليه ليكون سكنا شرعيا لائقا بهما. وإذا تجهزت بنفسها أو جهزها ذووها فالجهاز ملك لها خاص بها."

(ج:16، ص:166، ط: دار السلاسل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503100895

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں