بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

منگنی وغیرہ کے موقع پر لڑکی والوں سے سامانِ جہیز و جوڑے کے نام پر رقم کا مطالبہ کرنا


سوال

شادی بیاہ کی ایک رسم ہے کہ منگنی کے موقع پر دولہا کی طرف سے سامانِ جہیز، سونے کے زیورات اور لاکھوں میں جوڑے کی رقم کی ڈیمانڈ کی جاتی ہے، تو دلہن کے والدین یا بھائیوں کو مجبوراً دولہا کی اس مانگ کو پورا کرنے کے لیے زمین اور جائیداد فروخت کرنے کے علاوہ سودی قرضے لینا پڑتا ہے، اس کے علاوہ نکاح سے پہلے شکرانہ کی رات کا کھانا، صبح کا ناشتہ، اور نکاح کے دن دوپہر میں مجبوراً سینکڑوں لوگوں کی دعوت کرنی پڑتی ہے، تو شریعت میں یہ جوڑے کی رقم وغیرہ لینا جائز ہے یا رشوت و حرام میں شمار ہوگا؟ شریعت میں اگر جائز ہے تو قرآن کی روشنی میں حوالہ عنایت فرمائیں، اگر رشوت ہے تو سامانِ جہیز، سونے کے زیورات اور جوڑے کی رقم واپس کرنا ضروری ہے یا نہیں؟

اسی تناظر میں ایک دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ میرا نکاح 2002ء میں ہوا، نکاح سے کچھ ماہ پہلے ہی میرے ہونے والے شوہر کو بہ طورِ جوڑے کی رقم ڈیڑھ لاکھ روپے دینے پڑے، اس کے لیے والد صاحب کو زمین فروخت کرنے کے علاوہ سودی قرض بھی لینا پڑا، اس رقم کے ذریعہ میرے شوہر نے انگریزی تعلیم مکمل کر کے سرکاری ملازمت حاصل کر لی ہے، اس وقت 2023ء میں ان کی ماہانہ تنخواہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپے ہے،نیز اس نکاح میں جوڑے کی رقم کے علاوہ باراتیوں کے لیے تین وقت رات میں شکرانہ کے نام پر 100 لوگوں کی، اور صبح ناشتہ میں 200 لوگوں کی، اور دوپہر میں 500 باراتیوں کی دعوت کی گئی تھی، یعنی یہ نکاح ہندوانہ لوازمات کے ساتھ ہوا، اور میری بقیہ 5 بہنوں کا نکاح بھی اسی طرح ہوا، جوڑے کی رقم اور جہیز کے علاوہ کسی بہن کو میں تولہ سونے کے زیورات اور کسی بہن کو اٹھارہ تولہ زیورات دئیے گئے ہیں، ان اخراجات کے لیے والد صاحب کو اپنی کمائی کے علاوہ زمین فروخت کرنی پڑی، اور سودی قرض بھی لینا پڑا، ان کے علاوہ صرف میری ایک بہن کا نکاح شریعت کے مطابق بغیر جوڑے اور جہیز کے ہوا تھا، اور صرف باراتیوں کی دعوت کی گئی تھی۔

2006ء میں میرے والد صاحب کا انتقال ہوا، تو والدہ نے 2007ء میری آخری بہن کے نکاح کے اخراجات کے لیے 2 ایکڑ زمین فروخت کر کے مزید کچھ رقم قرض لے کر کل چار لاکھ پچاس ہزار روپے جوڑے کی رقم، اور اسکور کے لیے پچاس ہزار روپے اور پندرہ تولہ سونے کے زیورات دینے کے علاوہ پانچ سو باراتیوں کے کھانے کا انتظام کیا تھا، میری اس بہن کے ہونے والے شوہر سرکاری ملازم تھے، اس لیے ان تمام ہندوانہ و ظالمانہ لوازمات کے ساتھ ہوا تھا، اور اس وقت تمام وارثین، چھ بہنیں اور دو بھائی خاموش رہے، اور کوئی اعتراض نہیں کیا، کہ چلو آخری بہن کا نکاح شاندار ہو جائے، جب کہ والد صاحب قبل وفات اس بہن کے لیے جوڑے کی رقم میں صرف ایک لاکھ روپیہ دینے کی بات کرتے تھے، اور قبل وفات والد صاحب کی زبانی وصیت یہ تھی کہ میری ایک بہن جس کا نکاح اسلامی طریقہ سے بغیر جوڑے کی رقم و جہیز کے ہوا تھا، اس کو دو سینٹ زمین دی جائے، اور بقیہ تمام جائیداد ان کے دولڑکوں کے درمیان مساوی طور پر تقسیم کر دی جائے، اور لڑکیوں کے لیے چوں کہ ان کے نکاحوں کے وقت جوڑے کی رقمیں اور سونے کے زیورات اور جہیز کا سامان دے دئیے تھے، اس لیے ان کو آگے کچھ نہ دینے کی بات کرتے تھے، تو تمام وارثین از روئے رضا مندی خاموش رہتے، اور کوئی اعتراض بھی نہ کرتے، کیوں کہ ہر ایک کے نکاح کے وقت زمین اور جائیدادیں فروخت کرنے کے علاوہ سودی قرض بھی لیے تھے، اور والدہ نے بعد انتقال والد ان قرضوں کی ادائیگی بھی کر دی، اس زبانی وصیت اور مذکورہ بالا حالات کی وجہ سے ڈیڑھ ایکڑ زمین جو کہ 2006ء میں والد صاحب کے انتقال کے بعد سرکاری قانون کے حساب سے والدہ کے نام ہو گئی، اسے والدہ نے 2021ء میں دو بھائیوں کے درمیان مساوی طور پر تقسیم کر دیا، اور ایک پونے دوسینٹ کا مکان اس بہن کے نام کر دیا، جس کا اسلامی طریقہ سے نکاح ہوا تھا۔

اب سوال یہ ہے کہ اس ڈیڑھ ایکڑ زمین میں بقیہ وارثین کو حصہ ملے گا یا دو بھائیوں کے درمیان والد صاحب کی زبانی وصیت کی بناء پر تقسیم کر دینا صحیح ہوا؟ کیوں کہ میرے شوہر کا کہنا ہے کہ تم بھی ڈیڑھ ایکڑ زمین سے حصہ مانگو اور لو، ور نہ تمہارے والد صاحب جہنم میں جائیں گے، جب کہ میرے شوہر نے ڈیڑھ لاکھ جوڑے کی رقم لی تھی، تو کیا یہ رشوت نہیں ہے؟ اسے واپس نہ کرنے پر کیا وہ جہنم میں جائیں گے؟ جوڑے کی رقم واپس کر کے وراثت مانگنا ہے یا بغیر واپس کیے بھی وراثت کی حق دار ہوں؟ حق دار ہونے کے باوجود مجھے اپنا حصہ چھوڑ دینا بہتر ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے شریعت نے  نکاح کو سادہ اور آسان رکھا ہے، اس میں تکلفات، لوازمات، رسوم و رواج کو  ناپسند قرار دیا ہے، نیز ان رسومات کی وجہ سے اسراف کی حد تک مال خرچ کیا جاتا ہے، جب کہ قرآنِ کریم میں اسراف وتبذیر کی صراحۃً ممانعت وارد ہے۔

اور پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:

" سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں سب سے کم مشقت (کم خرچہ اور تکلف نہ) ہو" ۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں منگنی وشادی کے موقع پر مذکور مروجہ وہندوانہ رسومات کرنا اور مزید یہ کہ اس رسومات کے پورا کرنے کے لیے سودی قرضہ لینا کسی طرح بھی جائز نہیں، اس سے اجتناب کرنا لازم ہے۔

باقی جہیز و جوڑے کے نام پر لڑکے والوں کا کسی قسم کے رقم کا مطالبہ کرنا جائز نہیں ہے، اور یہ رشوت کے زمرے میں آتا ہے، جوکہ واپس کرنا لازم ہوتا ہے۔

انتقال کے وقت میت کی ملکیت میں جو کچھ موجود ہوتاہے، وہ سب اس کےترکہ میں شمار ہوکر اس میں وراثت جاری ہوتی ہے، اور وراثت کے تمام مال میں ہر ایک وارث شریک ہوتا ہے، اس لیے والد کی وفات کے بعد تر کہ کی تقسیم سے پہلے بہن کی شادی پر خرچہ اگر ورثاء کی اجازت کے بغیر کیا تھا، تو وہ کرنا جائز نہیں تھا، جو ورثاء راضی نہیں تھے ان کو ان کے حصے کے بقدر دینا لازم ہے۔

اور والد نے اپنی بیٹی اور بیٹوں کو زمین و جائیداد دینے کے جو وصیت کی تھی، تو چوں کہ وصیت وارث کے حق میں نافذ نہیں ہوتی ہے، الایہ کہ دیگر  تمام عاقل بالغ ورثاء  اجازت دے دیں، اس لیے اگر ورثاء راضی نہ ہوں تو والد صاحب کی وہ تمام جائیداد تمام ورثاء میں (بشمول سائلہ کے) ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی، البتہ اپنا حصہ وصول کرنے کے بعد سائلہ اگر وہ کسی کو دینا چاہے، تو دے سکتی ہے، تقسیم سے پہلے اگر چھوڑبھی دیتی ہے تو تب بھی اس کو لینے کا حق حاصل ہوگا۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا لا تظلموا ألا ‌لا ‌يحل ‌مال امرئ إلا بطيب نفس منه."

(کتاب البيوع، باب الغصب والعارية، الفصل الثاني، ج: 1، ص: 443، رقم: 2945، ط: بشري)

فتاوی شامی میں ہے:

"(‌أخذ ‌أهل ‌المرأة شيئا عند التسليم فللزوج أن يسترده) لأنه رشوة.

(قوله عند التسليم) أي بأن أبى أن يسلمها أخوها أو نحوه حتى يأخذ شيئا، وكذا لو أبى أن يزوجها فللزوج الاسترداد قائما أو هالكا لأنه رشوة بزازية."

(‌‌كتاب النكاح، ‌‌باب المهر، ج: 3، ص: 156، ط: سعيد)

الموسوعۃ الفقہیہ الکویتیہ میں ہے:

"‌الجهاز ‌بالفتح، والكسر لغة قليلة، وهو اسم... ما تزف به المرأة إلى زوجها من متاع... ذهب جمهور الفقهاء إلى أنه لا يجب على المرأة أن تتجهز بمهرها أو بشيء منه، وعلى الزوج أن يعد لها المنزل بكل ما يحتاج إليه ليكون سكنا شرعيا لائقا بهما. وإذا تجهزت بنفسها أو جهزها ذووها فالجهاز ملك لها خاص بها."

(‌‌جهاز، جهاز الزوجة، ج: 16، ص: 166،165، ط: وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية - الكويت)

تکملہ رد المحتار لمحمد علاء الدین میں ہے:

"الإرث إنما يجري في المتروك من ملك أو حق للمورث على ما قال عليه الصلاة والسلام من ترك مالا أو حقا فهو لورثته."

(كتاب الحدود، فصل في صفات الحدود، قبيل بيان مقدار الواجب منها، ج: 7، ص: 57، ط: سعید)

مجمع الأ نھر فی شرح ملتقی الأبحر میں ہے:

"(وكل منهما) أي كل واحد من الشريكين أو الشركاء شركة ملك (أجنبي في نصيب الآخر) حتى لا يجوز له التصرف فيه إلا بإذن الآخر كغير الشريك لعدم تضمنها الوكالة."

(كتاب الشركة، ج: 1، ص: 715، ط: دار إحياء التراث العربي)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(وعنه) أي عن سمرة (عن النبي صلي الله عليه وسلم قاك علي اليد ما أخذت) أي يجب علي اليد رد ما أخذته... قال الطيبي... ما أخذته اليد ضمان علي صاحبها والإسناد إلي اليد علي المبالغة لأنها هي المتصرفه (حتي تؤدي)... أي حتي تؤدِيه إلي مالكه فيجب رده في الغصب وإن لم يطلبه."

(كتاب البيوع، باب الغصب والعارية، الفصل الثاني، ج: 6، ص: 137، ط: رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولا لوارثه... إلا بإجازة ورثته ... لقوله - عليه الصلاة والسلام - «لا وصية لوارث إلا أن يجيزها الورثة»وهم كبار) عقلاء فلم تجز إجازة صغير ومجنون."

(کتاب الوصایا، ج: 6، ص: 656،655، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504102102

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں