کیا یہ امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کا قول ہے رہنمائی فرمائیں، جب کوئی حدیث سنو تو اسے عقل کے معیار پر پرکھ لو، صرف نقل الفاظ پر بس نہ کرو، کیونکہ علم کے نقل کرنے والے تو بہت ہیں اور اس میں غور کرنے والے کم ہیں۔
سوال میں مذکورہ قول اہل تشیع کی کتاب " نھج البلاغہ" موجود ہے، اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں :
"اعْقِلُوا الْخَبَرَ إِذَا سَمِعْتُمُوهُ عَقْلَ رِعَايَةٍ لَا عَقْلَ رِوَايَةٍ، فَإِنَّ رُوَاةَ الْعِلْمِ كَثِيرٌ وَ رُعَاتَهُ قَلِيلٌ."
(نهج البلاغة، ص: 700، الباب الثالث، ط: مؤسسة المعارف، بيروت)
اس کا مفہوم وہ نہیں ہے جو سائل کی عبارت سے سمجھ آرہا ہے کہ حدیث کو عقل پر پرکھو، بلکہ شارحِ نہج البلاغہ کے مطابق اس کا مفہوم یہ ہے کہ جب تم مجھ (حضرت علی رضی اللہ عنہ) سے یا کسی سے کوئی علم اور حکمت وغیرہ کی کوئی بات سنو تو صرف الفاظ سننے، سنانے پر اکتفا نہ کرو، بلکہ جو کچھ سنو اس کو معرفت اور فہم کے ساتھ سمجھو، (یعنی صرف الفاظ کو سننے اور نقل کرنے پر اکتفا نہ کرو، بلکہ اس میں غور وفکر، تدبّر اور تامّل کرو؛ تاکہ اس پر عمل کرنا آسان ہو) ؛ اس لیے کہ علم کو صرف نقل کرنے والے تو بہت ہیں، لیکن اس میں غور وفکر کرنے والے، سمجھنے والے کم ہیں۔ جيسا كه شرح نھج البلاغہ لابن حدید میں ہے:
"نهاهم (رضي الله تعالى عنه) عن أن يقتصروا إذا سمعوا منه أو من غيره أطرافا من العلم و الحكمة، على أن يرووا ذلك رواية كما يفعله اليوم المحدثون، و كما يقرأ أكثر الناس القرآن دراسة و لايدرى من معانيه إلا اليسير. و أمرهم أن يعقلوا ما يسمعونه عقل رعاية أي معرفة و فهم. ثم قال لهم: " إن رواة العلم كثير، و رعاته قليل " أي من يراعيه ويتدبره."
(شرح نهج البلاغة - ابن أبي الحديد،18/ 254، ط: دارأحياء الكتب العربية)
نيز يه واضح رهے كه ”نہج البلاغہ“ کتاب چوتھی صدی ہجری میں اہل تشیع کے عالم علی بن حسین بن موسی جو کہ علامہ شریف مرتضی کے نام سے مشہور تھے انہوں نے مرتب کی ہے، بعض اہل علم کے نزدیک ان کے بھائی ابو الحسن محمد بن حسین بن موسی جو کہ سید شریف رضی کے نام سے مشہور تھے، ان کی مرتب کردہ ہے، اس میں عربی ادبی رنگ میں بہت سے خطبات، مکتوبات، حکمت اور نصائح والے اقوال جمع کیے ہیں اور انہیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرف منسوب کیا ہے، اہل تشیع کے نزدیک یہ کتاب مذہبی حیثیت کی حامل ہے۔ لیکن اس کتاب کی اسنادی حیثیت درست نہیں ہے، اس کی باتوں کی نسبت بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرف کرنا درست نہیں ہے۔
نھج البلاغہ کی کتاب کی اسنادی حیثیت سے متعلق تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر جامعہ کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں:
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144501101952
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن