بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نہج البلاغہ کتاب پڑھنے کا حکم


سوال

نہج البلاغہ کا پڑھنا کیسا ہے؟

جواب

نہج البلاغہ  کتاب چوتھی صدی ہجری میں اہل تشیع کے عالم علی بن حسین بن موسی جو کہ علامہ شریف مرتضی کے  نام سے مشہور تھے انہوں نے مرتب کی ہے، بعض اہل علم کے نزدیک ان کے بھائی  ابو الن محمد بن حسین بن موسی جو کہ سید شریف رضی کے نام سے مشہور تھے ان کی مرتب کردہ ہے، اس میں عربی ادبی رنگ میں بہت سے خطبات، مکتوبات، حکمت اور نصائح والے اقوال جمع کیے ہیں اور انہیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرف منسوب کیا ہے، اہل تشیع کے نزدیک یہ کتاب مذہبی حیثیت کی حامل ہے۔

لیکن اس کتاب کی اسنادی حیثیت درست نہیں ہے، یہ کتاب نہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے خطبات کا مجموعہ ہے اور نہ ان کی طرف ان نسبت درست ہے۔

 علامہ شمس الدین أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن عثمان الذہبی (المتوفیٰ: 748هـ) سیر اعلام النبلاء میں لکھتے ہیں کہ یہ کتاب  حضرت علی  کرم اللہ وجہہ کی طرف منسوب ہے، لیکن اس کی کوئی سند نہیں ہے، اور اس میں بعض باتیں باطل ہیں،  اگرچہ اس میں کچھ حق بھی ہے، لیکن اس میں ایسی من گھڑت چیزیں بھی ہیں کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے کہا ہو۔

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (المتوفی ۸۵۲ھ ) لسان المیزان میں تحریر فرماتے ہیں کہ : جو شخص نہج البلاغہ کا مطالعہ کرے تو وہ یقین سے کہہ سکتا ہے کہ یہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر جھوٹ گھڑا گیا ہے، اس لیے کہ اس میں شیخین کریمین حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو صریح گالیاں دی گئی ہیں  اور  ان کی شان میں گستاخی ہے، اور اس میں ایسے تناقض اور گھٹیا چیزیں ہیں کہ جو  شخص صحابہ کرام احوال سے واقف ہو  تو وہ یقین سے کہہ سکتا ہے کہ اس کتاب میں اکثر چیزیں باطل ہیں۔

اور ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں، اس کے مصنف معتزلہ کے بڑے داعیوں میں سے تھے اور یہ امامیہ فرقہ سے تعلق رکھتے تھے۔

لہذا عام شخص کے لیے اس کتاب کا مطالعہ کرنا جائز نہیں ہے، اور اہل علم کے لیے علمی گرفت کے لیے یا اس کے رد کے لیے یا لوگوں کو اس کے فتنہ سے بچانے کے لیے اس کو پڑھنا جائز ہے۔

سير أعلام النبلاء ط الحديث (13 / 231):
العَلاَّمَةُ الشَّرِيْفُ المُرْتَضَى، نَقِيْبُ العَلَوِيَّة، أَبُو طَالِبٍ؛ عَلِيُّ بنُ حُسَيْنِ بن مُوْسَى، القُرَشِيُّ العَلَوِيُّ الحُسَيْنِيُّ المُوْسَوِيُّ البَغْدَادِيُّ، مِنْ وَلد مُوْسَى الكَاظِم.
وُلِدَ سَنَةَ خَمْسٍ وَخَمْسِيْنَ وَثَلاَثِ مائَةٍ. وَحَدَّثَ عَنْ: سَهْلِ بنِ أَحْمَدَ الدِّيباجِي، وَأَبِي عَبْدِ اللهِ المَرْزُبَانِيّ، وَغيرهمَا.
قَالَ الخَطِيْبُ: كَتَبْتُ عَنْهُ.
قُلْتُ: هُوَ جَامعُ كِتَابِ "نَهْجِ البلاغَة"، المنسوبَة أَلفَاظُه إِلَى الإِمَامِ عَلِيّ -رَضِيَ اللهُ عَنْهُ-، وَلاَ أَسَانيدَ لِذَلِكَ، وَبَعْضُهَا بَاطِلٌ، وَفِيْهِ حقٌّ، وَلَكِن فِيْهِ مَوْضُوْعَاتٌ حَاشَا الإِمَامَ مِنَ النُّطْقِ بِهَا، وَلَكِنْ أَيْنَ المُنْصِفُ?! وَقِيْلَ: بَلْ جَمْعُ أَخِيْهِ الشَّرِيْف الرَّضي.

لسان الميزان (4 / 223):
"علي" بن الحسن بن موسى بن محمد بن موسى بن إبراهيم بن موسى بن جعفر بن محمد بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب أبو القاسم العلوي الحسيني الشريف المرتضى المتكلم الرافضي المعتزلي صاحب التصانيف حدث عنه سهل الديباجي والمرزباني وغيرهما وولي نقبة العلوي ومات سنة ست وثلاثين وأربع مائة عن إحدى وثمانين سنة وهو المهم بوضع كتاب [نهج البلاغة] وله مشاركة قوية في العلوم ومن طالع [نهج البلاغة] جزم بأنه مكذوب على أمير المؤمنين علي رضي الله عنه ففيه السب الصراح والحط على السيدين أبي بكر وعمر رضي الله عنهما وفيه من التناقض والأشياء الركيكة والعبارات التي من له معرفة بنفس القرشيين الصحابة وبنفس غيرهم ممن بعدهم من المتأخرين جزم بأن الكتاب أكثره باطل أنهى وقال ابن حزم كان من كبار المعتزلة الدعاة وكان إماميا.

الأعلام للزركلي (4 / 278):
علي بن الحسين بن موسى بن محمد بن إبراهيم، أبو القاسم، من أحفاد الحسين بن علي بن أبي طالب: نقيب الطالبيين، وأحد الأئمة في علم الكلام والأدب والشعر. يقول بالاعتزال. مولده ووفاته ببغداد. له تصانيف كثيرة، منها " الغرر والدرر - ط " يعرف بأمالي المرتضى، و " الشهاب في الشيب والشباب - ط " و " الشافي في الإمامة - ط " و " تنزيه الأنبياء - ط " و " الانتصار - ط " فقه، و " المسائل الناصرية - ط " فقه، و " تفسير القصيدة المذهبة - ط " شرح قصيدة للسيد الحميري، و " إنقاذ البشر من الجبر والقدر - ط " و " الرسائل - ط " و " طيف الخيال - ط " مقدمة في الأصول الاعتقادية - ط " ورقتان، و " أوصاف البروق " و " ديوان شعر - ط " يقال: إن فيه عشرين ألف بيت. كثير من مترجميه يرون أنه هو جامع " نهج البلاغة - ط " لا أخوه الشريف الرضي، قال الذهبي: وهو - أي المرتضى - المتهم بوضع كتاب نهج البلاغة، ومن طالعة جزم بأنه مكذوب على أمير المؤمنين
۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110201016

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں