بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

امام کے چھٹی کرنے پر تنخواہ کاٹنے کا حکم


سوال

مسجد کا امام صاحب بغیر اجازت چھٹی کرے اور متولی ومقتدی حضرات اس کے بغیر اجازت چھٹی کرنے پر ناراض بھی ہوں تو کیا ان دنوں کا تنخواہ لینا امام کے لیے جائز ہے؟ نیز متولی ان دنوں کا تنخواہ دینے کے لیے تیار بھی نہ ہو۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں معاہدہ کےوقت  اگر  مسجد کی انتظامیہ  اور امام کے ساتھ  یہ طے کر لیاگیا تھا کہ سالانہ کتنے یوم کی چھٹی مع وظیفہ کرنے کی اجازت ہوگی، اور اس سے زائد چھٹی کرنے کی صورت میں وظیفہ میں سے منہا کیا جائے گا،  پس   امام معاہدے  کے مطابق استحقاقی چھٹی کے ایام کی  حق دار ہوں گے، لیکن اگر تقرر کے وقت  سے زائد  دنوں کی چھٹی کی ہے،تو ایسی صورت میں  کمیٹی کو ان ایام کی تنخواہ کاٹنے کا حق ہوگا۔

تفصیل کے لیے  درج ذیل لنک پر فتویٰ ملاحظہ کیجیے:

امام و مؤذن کی چھٹیوں کے ضابطے اور تنخواہ میں کٹوتی يا پیشگی تنخواہ کا حکم

فتاوی شامی میں ہے:

"وھل یأخذ (أي المدرس) أیام البطالۃ کعید و رمضان لم ارہ وینبغی إلحاقه ببطالة القاضي والأصح انه یأخذ لأنھا للاستراحة اشباہ من قاعدۃ العادۃ محکمة وسیجیٔ ما لوغاب فیلحفظ.....قلت: هذا ظاهر فيما إذا قدر لكل يوم درس فيه مبلغا أما لو قال يعطى المدرس كل يوم كذا فينبغي أن يعطى ليوم البطالة المتعارفة بقرينة ما ذكره في مقابله من البناء على العرف، فحيث كانت البطالة معروفة في يوم الثلاثاء والجمعة وفي رمضان والعيدين يحل الأخذ، وكذا لو بطل في يوم غير معتاد لتحرير درس إلا إذا نص الواقف على تقييد الدفع باليوم الذي يدرس فيه."

(کتاب الوقف، مطلب فی استحقاق القاضی والمدرس الوظیفۃ، ج:4، ص:372، ط: سعید)

و فیہ ایضاً:

"(والثاني) وهو الأجير (الخاص) ويسمى أجير وحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو) شهرا (لرعي الغنم) المسمى بأجر مسمى بخلاف ما لو آجر المدة بأن استأجره للرعي شهرا حيث يكون مشتركا إلا إذا شرط أن لا يخدم غيره ولا يرعى لغيره فيكون خاصا."

(کتاب الاجارۃ، باب ضمان الاجیر، ج:6، ص:72، ط: سعید)

النتف فی الفتاوی میں ہے:

"فان وقعت على عمل معلوم فلاتجب الأجرة إلا بإتمام العمل إذا كان العمل مما لايصلح أوله إلا بآخره وإن كان يصلح أوله دون آخره فتجب الأجرة بمقدار ما عمل.
وإذا وقعت على وقت معلوم فتجب الأجرة بمضي الوقت إن هو استعمله أو لم يستعمله وبمقدار ما مضى من الوقت تجب الأجرة."

(کتاب الاجارۃ، ما يجوز ولا يجوز في الاجارة من الاحكام، ج:2، ص:559، ط: مؤسسة الرسالة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505100936

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں