بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 ذو القعدة 1446ھ 24 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

میت کمیٹی بنانا اور جمع ہونے والی رقم کو بینک کے سیونگ اکاؤنٹ میں رکھ کر سود کو مشترکہ فلاحی امور میں استعمال کرنا


سوال

میرا تعلق آزاد کشمیر کے ایک گاؤں سے ہے ،ہمارے محلے کی 2014ء میں ایک کمیٹی بنی تھی، جس کی بنیاد یہ تھی کہ ہمارے  پسماندہ علاقوں میں آمدن کے وسائل بہت کم ہونے کی وجہ سے اگر گھر میں کوئی فوتگی ہوجائے تو اس وقت ایک عام غریب انسان کے پاس اتنی رقم کا انتظام کرنا مشکل ہوتا ہے جس سے وہ اپنی میت کے کفن دفن ، اور دعا و درود وغیرہ کا اہتمام کرسکے،محلے میں مشترکہ فیصلے سے کمیٹی تشکیل دی گئی اور ماہانہ بنیاد پر ایک چھوٹی سی رقم (جو ہر گھر  باآسانی ادا کرسکتا ہے)کمیٹی ممبران کے پاس جمع ہوتی ہے، جس سے اگر محلے میں کسی کے گھر فوتگی ہوجاتی ہے تو کمیٹی سے آپ کو ایک مخصوص رقم ادا کی جاتی ہے جس سے میت کا کفن دفن وغیرہ کا اہتمام ہوتا ہے، تاکہ میت کے اہل خانہ اس بات پر پریشان نہ ہوں۔

غالباًد و ہزار بیس یا اکیس میں کمیٹی کے پاس اتنے پیسے ہوگئے تھے کہ جن کو اپنے پاس نہیں رکھ سکتے تھے، لہذا بینک میں سیونگ اکاؤنٹ کھلوا کر پیسے وہاں رکھ دیے، ابھی کچھ عرصہ قبل انہوں نے اکاؤنٹ سے انٹرسٹ (منافع) کی رقم نکال کر کچھ چیزیں خریدیں ہیں، جس میں جنریٹر، کرسیاں اور برتن وغیرہ شامل ہیں، جو فوتگی کے موقع پر استعمال ہوں گے، اس رقم سے خریدی گئی چیزوں پر کچھ ممبران مطمئن نہیں اور کچھ مطمئن ہیں، محلے میں اس حوالےسے اختلاف چل رہا ہے۔ انٹرسٹ ملا ہے وہ سب کے علم میں نہیں تھا کہ پیسہ سیونگ اکاؤنٹ میں رکھوایا ہے، لہذا اس بارے میں تفصیلی راہ نمائی فرمادیں۔ باقی اگر پیسے کو اسلامی بینکنگ کے اصول کے تحت رکھا جائے تو اس پر جو منافع کی رقم ملے کیا اُس سے فلاحی کام کیے جاسکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے سائل کے بیان کردہ سوال میں تین باتیں حل طلب ہیں، پہلی بات یہ کہ  شریعت کی رُو سے سودی لین دین کرنا یا سودی لین دین کا معاہدہ وغیرہ کرنا ناجائز ہے،اِس بنیاد پر کسی بھی بینک میں سیونگ اکاؤنٹ کھلونا  ہی جائز نہیں ہے، کیوں کہ اس میں سودی معاہدہ کرنا پڑتاہے، اور  سیونگ اکاؤنٹ میں رقم رکھوانے پر بینک کی طرف سے جو منافع ملتا ہے وہ سود ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے؛ لہٰذا بصورتِ مسئولہ سائل کے علاقے کی مذکورہ "میت کمیٹی" کے منتظمین  کا بینک میں سیونگ اکاؤنٹ کھلوانا اور اُس میں جمع کردہ رقم پر منافع (انٹرسٹ) وصول کرنا شرعاً ناجائز و حرام ہے،لہذا جن حضرات نےیہ سودی اکاؤنٹ کھلوایا اور اُس پر سودی رقم وصول کی ہے اور نیکی کے عنوان سے لوگوں سے چندے لے کر سود جیسی لعنت والے اکاؤنٹ میں رکھوا کر سود وصول کیا، یہ درحقیقت کوئی نیکی نہیں بلکہ سخت گناہ ہے، ان کو چاہیے کہ صدق دل سے توبہ و استغفار کریں، اور اکاؤنٹ سےاصل رقم نکلوا کر اِس سیونگ اکاؤنٹ کو ختم کردیں،اُس پر جو سود کی رقم ملی ہے اُسے وصول نہ کریں، اور اگر اُس سودی رقم کے نکالے بغیر سیونگ اکاؤنٹ بند نہ ہوتا ہو تو اُس سودی رقم کو نکال کر کسی مستحق کو ثواب کی نیت بغیر دے دی جائے، اُسے اپنے استعمال میں یا مشترکہ فلاحی امور میں صرف کرنا اور کرسیاں برتن وغیرہ خرید کر اہل تعزیت کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں، یایہ رقم  کسی کو ثواب کی نیت سے دینا جائز نہیں ہے۔ اِسی طرح سودی رقم سے جو جنریٹر، کرسیاں اور برتن وغیرہ مشترکہ فلاحی مقصد کے تحت خریدے ہیں، وہ بھی کسی مستحق کو ثواب کی نیت بغیر دے دیے جائیں۔

دوم یہ کہ  اسلامی بینکنگ کے اصول و قوانین کے تحت بھی بینک وغیرہ میں رقم جمع کروا کر منافع وصول کرنا جائز نہیں ہے، لہذا اسلامی بینکاری کے تحت بینک میں رقم جمع کرا کر منافع وصول کرنا سود ہی کہلائے گا۔بینک میں ضرورت کے تحت صرف کرنٹ اکاؤنٹ کھلوانے کی اجازت ہے۔

سوم یہ کہ آج کل مختلف مقامات پر خاندان، برادری یا علاقائی سطح پر  میت کمیٹیاں بنانے کا  جو رواج چل پڑا ہے، اس میں مختلف مفاسد و قباحتیں پائی جاتی ہیں، کیوں کہ شریعت کا حکم تو یہ ہے کہ  اگر کسی کے ہاں میت ہوجائے تو مستحب یہ ہے کہ میت کے عزیز و اقارب و پڑوسی مل کر میت کے اہلِ خانہ کے لیے ایک دن کے لیے کھانے کا انتظام کریں، میت کی تجہیزو تکفین کے خرچہ کے لیے دیکھا جائے کہ اگر میت نے کچھ مال چھوڑا ہے توتجہیز و تکفین کا خرچہ اس کے اپنے مال میں سے کیا جائے اور اگر میت نے کسی قسم کا مال نہیں چھوڑا توجس شخص پر اس کا خرچہ واجب تھا، وہ یہ اخراجات برداشت کرے، اگر وہ نہیں کرپاتا تو خاندان کے مخیر حضرات کو چاہیے کہ وہ یہ اخراجات اپنے ذمے لے لیں۔  جبکہ مروجہ میت کمیٹیوں کے قیام میں درج ذیل خرابیاں لازم آتی ہیں:

  • (1)کمیٹی کا ممبر بننے کے لیے ضروری ہے کہ ہرفرد چاہے امیر ہو یا غریب،ایک مخصوص رقم ہر ماہ کمیٹی میں جمع کرائے،اگر وہ یہ رقم جمع نہیں کراتا تو اسے کمیٹی سے خارج کردیا جاتاہے،پھر کمیٹی اس کو وہ سہولیات فراہم نہیں کرتی جو ماہانہ چندہ دینے والے ممبران کو مہیا کرتی ہے،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کمیٹی کی بنیادصدقہ اور"امداد باہمی"پر نہیں،بلکہ اس کا مقصد ہر ممبر کو اس کی جمع کرائی گئی رقم کے بدلے سہولیات فراہم کرنا ہے ،یہ سہولیات اس کی جمع کرائی گئی رقم سے کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوسکتی ہے،جوکہ سود کے مشابہ اور قابل ترک ہے۔
  • (2)بسا اوقات اس طریقہ کار میں ضرورت مند اور تنگ دست سے ہم دردی اور احسان کے بجائے اس کی دل شکنی کی جاتی ہے اور اس کے ساتھ بدسلوکی کا رویہ برتا جاتا ہے؛ کیوں کہ خاندان کے جو غریب افراد کمیٹی کی ماہانہ یا سالانہ فیس نہیں بھر پاتے انہیں کمیٹی سے خارج کردیا جاتا ہے اس طرح ان کی حاجت اور ضرورت کے باوجود انہیں اس نظم کا حصہ نہیں بنایا جاتا اور پھر موت جیسے غمگین موقع پر اسے طرح طرح کی باتوں اور رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
  • (3)اس طریقہ کار میں کھانا کھلانا ایک عمومی دعوت کی شکل اختیار کرجاتا ہے،حال آں کہ مستحب یہ ہے کہ یہ نظام صرف میت کے گھر والوں اور دور دراز کے علاقے سے آنے والے رشتہ دار جن کا کوئی متبادل ٹھکانہ نہیں ان   کے لیے ہو۔
  • (4) جب اس طرح کے فنڈز جمع ہوتے ہیں توکسی دوسرے شہر میں ہونے والی میت کو جلد از جلد  قبر میں دفن کرنے کے بجائے اپنے آبائی گاؤں میں بھیجنے کا انتظام کیا جاتا ہے، اس طرح تدفین میں تاخیر کا سبب بنتا ہے جوکہ غلط ہے۔

 البتہ اگرمندرجہ بالا قباحتوں سے اجتناب کرتے ہوئے کوئی رفاہی انجمن یا کمیٹی قائم کی جائے جس میں مخیر حضرات ازخود چندہ دیں، کسی فردکوچندہ دینے پر مجبور نہ کیا جائے تو اس کی گنجائش ہے، یہ انجمن یا کمیٹی خاندان کے لوگوں کی ضروریات کی کفالت کرے، بے روزگار افراد کے لیے روزگار ، غریب و نادار بچیوں کی شادی اور دیگر ضروریات میں ضرورت مندوں کی مدد کرے، ان امور کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ اگریہ کمیٹی یا انجمن خاندان کے کسی فرد کی موت کے بعد اس کی تجہیز و تکفین پر آنے والے اخراجات بھی اپنے ذمہ لے تو یہ درست ہوگا۔مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ فرمائیں:

میت کمیٹی کا حکم اور فنڈ میں جمع شدہ رقم کی حیثیت و زکوۃ اور فنڈ کی رقم کاروبار میں لگانے کا حکم

قرآنِ کریم میں ہے:

"يَٰٓأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ اتَّقُواْ اللَّهَ وَذَرُواْ مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَوٰٓاْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ٢٧٨ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ فَأْذَنُواْ بِحَرْبٖ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِۦ...الأية"(سورة أل عمران، الأية:279)

ترجمہ:’’اے ایمان والو ! ڈرو اللہ سے اور چھوڑ دو جو کچھ باقی رہ گیا ہے سود اگر تم کو یقین ہے اللہ کے فرمانے کا، پس اگر نہیں چھوڑتے تو تیار ہوجاؤ لڑنے کو اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اگر توبہ کرتے ہو تو تمہارے واسطے ہے اصل مال تمہارا نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ تم پر کوئی۔‘‘(بیان القرآن)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن جابر قال: لعن رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم آکل الربا، وموکله، وکاتبه، وشاهدیه، وقال: هم سواء".

(با ب لعن آکل الربا، ومؤکله، ج: 2، ص:27، ط: النسخة الهندیة)

ترجمہ:حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ  : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سودی معاملہ لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے، اور ارشاد فرمایا: یہ سب (سود کے گناہ میں) برابر ہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به ويأتي تمامه."

(باب المرابحة والتولية، ‌‌فصل في القرض،ج:5، ص:166، ط:سعيد)

وفیه ایضا:

"ويردونه على أربابه إن عرفوهم، وإلا يتصدقوا به؛ لأن ‌سبيل ‌الكسب ‌الخبيث التصدق إذا تعذر الرد."

(کتاب الحظر والإباحة، فصل فی البیع،ج:6 ،ص:385، ط:سعید)

معارف السنن میں ہے:

"قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقهائنا کالهدایة وغیرها: أن من ملك بملك خبیث، ولم یمكنه الرد إلى المالك، فسبیله التصدقُ علی الفقراء ... قال: و الظاهر أن المتصدق بمثله ینبغي أن ینوي به فراغ ذمته، ولایرجو به المثوبة."

(أبواب الطهارة، باب ما جاء: لاتقبل صلاة بغیر طهور، ج:1، ص:34، ط: المکتبة الأشرفیة)

فقط والله تعالى اعلم بالصواب


فتوی نمبر : 144610100058

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں