میں جس ادارے میں کام کرتا ہوں آج سے تمام نمازوں بمع جمعہ کے سینٹر ہی میں (بوجہ کرونا پھیلاؤ) پڑھنے کا حکم جاری ہوا ہے، جب کہ جامع مسجد چند فرلانگ کے فاصلے پر ہی ہے، ہم نماز ظہر اور عصر اپنی جماعت کرکے پڑھتے ہیں، جمعہ کی نماز کا خطبہ اور جماعت سینٹر ہی میں پڑھانے کا مجھے کہا گیا ہے۔ایسے حالات میں میرے لیے کیا حکم ہے؟
جمعہ کی نماز جامع مسجد میں جاکر ہی پڑھنا چاہیے، اسی میں مسلمانوں کا اجتماع اور اسلام کی شان وشوکت کا اظہار ہے، اس لیے آپ لوگوں کو چاہیے کہ متعلقہ انتظامیہ سے اجازت لے کر قریبی جامع مسجد میں جاکر جمعہ کی نماز ادا کریں، عام حالات میں جامع مسجد کو چھوڑ کر مصلوں پر جمعہ کی نماز قائم کرنا درست عمل نہیں ہے، کیوں کہ مسجد کے علاوہ کسی دوسری جگہ جمعہ کی نماز پڑھنے کی صورت میں مسجد کا ثواب حاصل نہیں ہوگا، بلکہ بلا عذر مسجد کے علاوہ دیگر جگہوں میں جمعہ کی نماز پڑھنے کو فقہاءِ کرام نے مکروہ قرار دیا ہے، البتہ اگر شہر یا بڑے قصبے میں مسجد کے علاوہ کسی دوسری جگہ نماز جمعہ کی دیگر شرائط کی رعایت کرتے ہوئے جمعہ کی نماز پڑھ لی جائے تو کراہت کے ساتھ نماز ادا ہوجائے گی اور فرض ذمے سے ساقط ہوجائے گا۔
مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتویٰ دیکھیے:
مسجد قریب ہوتے ہوئے عبادت خانہ میں جمعہ کی ادائیگی
مسجد دور ہونے کی وجہ سے جمعہ کی نماز گھر میں پڑھنا
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 152):
ولو فتحه وأذن للناس بالدخول جاز وكره
(قوله وكره) لأنه لم يقض حق المسجد الجامع زيلعي ودرر.
حلبی کبیری میں ہے:
"وفي الفتاوی الغیاثیة: لوصلی الجمعة في قریة بغیر مسجد جامع والقریة کبیرة لها قری وفیها وال وحاکم جازت الجمعة بنوا المسجد أو لم یبنوا … والمسجد الجامع لیس بشرط، ولهذا أجمعوا علی جوازها بالمصلی في فناء المصر". (ص؛551، فصل فی صلاۃ الجمعۃ، ط؛ سہیل اکیڈمی)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"( و منها: الإذن العام ) وهو أن تفتح أبواب الجامع، فيؤذن للناس كافةً حتي أن جماعة لو اجتمعوا في الجامع و أغلقوا أبواب المسجد على أنفسهم و جمعوا لم يجز، و كذلك السلطان إذا أراد أن يجمع بحشمه في داره، فإن فتح باب الدار و أذن إذناً عاماً جازت صلاته شهدها العامة أو لم يشهدوها، كذا في المحيط".
(الباب السادس عشر في صلاة الجمعة، ١/ ١٤٨، ط: رشيدية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144203201048
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن