بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ابن عربی اور وحدت کے الوجود مسئلہ پر مختصر تبصرہ


سوال

ابن عربی اور وحدت الوجود کے متعلق علماء دیوبند کا عقیدہ کیا ہے؟

جواب

ابنِ عربی رحمہ اللہ  کو تصوف کی اصطلاح ’’وحدت الوجود‘‘ کے بانی اور مؤسس کہا جاتا ہے اور  علماءِ دیوبند کے نزدیک وہ اس مسئلہ میں راہِ اعتدال پر ہیں۔ البتہ بعض متصوفہ اور فلاسفہ نے وحدت الوجود کی تفصیل میں غلو کیا یا جہالت سے کام لیا جس کی وجہ سے  اس اصطلاح اوراس کے قائلین پر علمی دنیا میں  تنقید بھی کی گئی  ہے۔

وحدت الوجود کا آسانمطلب یہ ہے کہ اس کائنات میں ہر چیز اللہ کے وجود کی علامت ہے اور حقیقی اور مکمل وجود صرف اللہ تعالی کا ہے، اس کے سوا ہر چیز بے ثبات، فانی اور نامکمل ہے۔ ایک تو اس وجہ سے کہ وہ ایک نہ ایک دن ختم ہوجائے گی اور دوسرے اس وجہ  سے کہ ہر چیز اپنے وجود میں اللہ تعالی کی محتاج ہے؛ لہذا جتنی چیزیں ہمیں اس کائنات میں نظر آتی ہیں، انہیں اگرچہ وجود حاصل ہے، لیکن اللہ کے وجود کے سامنے اس وجود کی کوئی حقیقت نہیں، اس لیے وہ کالعدم ہے۔

اس کی نظیر یوں سمجھیے جیسے دن کے وقت آسمان پر سورج موجود ہونے کی وجہ سے ستارے نظر نہیں آتے، وہ اگرچہ موجود ہیں، لیکن سورج کا وجود ان پر اس طرح غالب ہوجاتا ہے کہ ان کا وجود نظر نہیں آتا۔

نظریہ ’’وحدت الوجود‘‘ کا   صاف، واضح اور درست مطلب یہی ہے، اور اسی تشریح کے ساتھ یہ علمائے دیوبند کا عقیدہ ہے، اس سے آگے اس کی جو فلسفیانہ تعبیرات کی گئی ہیں، وہ بڑی خطرناک ہیں، اور اگر اس میں غلو ہو جائے تو اس عقیدے کی سرحدیں کفر تک سے جاملتی ہیں۔ اس لیے ایک مسلمان کو بس سیدھا سادا یہ عقیدہ رکھنا چاہیے کہ کائنات میں حقیقی اور مکمل وجود اللہ تعالیٰ کا ہے، باقی ہر وجود نامکمل اور فانی ہے۔ (ماخوذ از فتاوی عثمانی، ج۱ / ص۶۶)

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر جامعہ کا فتویٰ ملاحظہ کیجیے:

ابن عربی رحمہ اللہ کے نظریہ وحدت الوجود اور ان کے بارے میں اکابرین دیوبند کی رائے


فتوی نمبر : 144109202962

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں