بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ابن عربی رحمہ اللہ کے نظریہ وحدت الوجود اور ان کے بارے میں اکابرین دیوبند کی رائے


سوال

شیخ محی الدین ابن عربی رحمہ اللہ کے بارے میں علمائے دیوبند کی کیا رائے ہے؟ نیز ان کے نظریہ وحدت الوجود کے بارے میں کیا رائے ہے؟

جواب

واضح رہے کہ ’’وحدت الوجود‘‘  کا صحیح مطلب یہ ہے کہ اس کائنات میں حقیقی اور مکمل وجود صرف ذاتِ باری تعالیٰ کا ہے، اس کے سوا  ہر وجود بے ثبات، فانی، اور نامکمل ہے۔ ایک تو اس لیے کہ وہ ایک نہ ایک دن فنا ہو جائے گا۔ دوسرا اس لیے کہ ہر شے اپنے وجود میں ذاتِ باری تعالی کی محتاج ہے، لہذا جتنی اشیاء ہمیں اس کائنات میں نظر آتی ہیں انہیں اگرچہ وجود حاصل ہے، لیکن اللہ کے وجود کے سامنے اس وجود کی کوئی حقیقت نہیں، اس لیے وہ کالعدم ہے۔
اس کی نظیر یوں سمجھیے جیسے دن کے وقت آسمان پر سورج کے موجود ہونے کی وجہ سے ستارے نظر نہیں آتے، وہ اگرچہ موجود ہیں، لیکن سورج کا وجود ان پر اس طرح غالب ہو جاتا ہے کہ ان کا وجود نظر نہیں آتا۔ اسی طرح جس شخص کو اللہ نے حقیقت شناس نگاہ دی ہو وہ جب اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کے وجود کی معرفت حاصل کرتا ہے تو تمام وجود اسے ہیچ، ماند، بلکہ کالعدم نظر آتے ہیں، بقول حضرت مجذوبؒ:
جب مہر نمایاں ہوا سب چھپ گئے تارے                                                                  تو مجھ کو بھری بزم میں تنہا نظر آیا
نظریہ ’’وحدت الوجود‘‘ کا   صاف، واضح اور درست مطلب یہی ہے، اور اسی تشریح کے ساتھ یہ علمائے دیوبند کا عقیدہ ہے، اس سے آگے اس کی جو فلسفیانہ تعبیرات کی گئی ہیں، وہ بڑی خطرناک ہیں، اور اگر اس میں غلو ہو جائے تو اس عقیدے کی سرحدیں کفر تک سے جاملتی ہیں۔ اس لیے ایک مسلمان کو بس سیدھا سادا یہ عقیدہ رکھنا چاہیے کہ کائنات میں حقیقی اور مکمل وجود اللہ تعالیٰ کا ہے، باقی ہر وجود نامکمل اور فانی ہے۔

 تفصیل کے لیے دیکھیے: شریعت و طریقت (ص۳۱۰) مؤلفہ حکیم الامت حضرت تھانوی قدس سرہ۔ (مستفاد از فتاویٰ عثمانی (ج:۱ ؍ ۶۶ ، مکتبہ معارف القرآن کراچی)

بصورتِ مسئولہ وحدت الوجود کے مسئلے میں شیخ محی الدین بن عربیؒ (متوفی:638ھ) کا جو تصوفانہ نظریہ ہے، وہ نظریہ  وجدانی کشفی ہے۔

ابن عربیؒ کے نظریہ وحدت الوجود پر عقیدہ رکھنے سے متعلق  حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں:

’’پس یہ قول تو حضرت شیخ سے حالتِ سکر میں صادر ہوا ہے جس میں وہ معذور تھے اور حالتِ سکر کے اقوال ماننے کے لیے ہم کو مجبور نہیں کیا جاسکتا‘‘۔

        (خطبات حکیم الامت ،ج:21،ص:73،ط:تالیفات اشرفیہ)

’’اگر کوئی شخص ان دعووں  پر اعتقاد نہ رکھے تو اس پر کوئی ملامت نہیں ہے، البتہ جو دعوی نصوص (قرآن و حدیث) کے ظاہر کے خلاف ہو تو اس پر کسی بھی طرح اعتقاد رکھنا درست نہیں ہے‘‘۔

(ملخص از التنبیہ الطربی فی تنزیہ ابن العربی)

نیز ابن عربیؒ کے متعلق حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی رائے مندرجہ ذیل ہے:

"مگر  ان غلطیوں کے باوجود شیخ اب بھی ویسے ہی حسین ہیں، جیسا کہ وہ ان اغلاط سے پہلے حسین تھے، ان کےعارف اور بہت بڑے ولی ہونے میں کس کو کلام ہوسکتا ہے، انہوں نے اگر ایک دو جگہ لغزش کی ہے تو ہزار جگہ ایسی تحقیقات بھی بیان کی ہیں  جن سے قرآن وحدیث کی حقیقت اور عظمت معلوم ہوتی ہے، جس نے شریعت کے اس قدر اسرار بیان کیے ہوں اس سے ایک دو جگہ لغزش بھی ہوجائے تو اس سے اس کے حسن میں کیا فرق آسکتا ہے"۔

(خطبات حکیم الامت ،ج:21،ص:73، ط:ادارہ تالیفات اشرفیہ)

 "البتہ چوں کہ حضرت شیخ کا کامل ہونا اساطینِ امت کی شہادت سے ثابت ہے؛ اس لیے اس سے شیخ ابن عربی پر طعن کرنا خطرے کا محل اور سوئے ادب ہے، رہا اس غلطی کا شیخ ابن عربی سے صادر ہونا تو اس کی مناسب توجیہ یہ کی جائے گی یا تو اسے اجتہاد کی غلطی کہاجائے گا  یا اس کی شیخ کی طرف نسبت کو غلط کہا جائے گا، جیسا کہ در مختار میں ہے"۔

(ملخص از التنبیہ الطربی فی تنزیہ ابن العربی)

ابن عربی رحمہ اللہ  سے متعلق مزید تفصیل کے لیے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ  کی کتاب"خصوص الکلم" جوکہ ابن عربی رحمہ اللہ  کی کتاب "فصوص الحکم" کی شرح ہے، مطالعہ کیاجاسکتاہے، اس شرح کی ابتدا میں  حضرت تھانوی رحمہ اللہ  نے ایک مختصر مقدمہ بھی تحریر فرمایاہے جو کہ"التنبیہ الطربی فی تنزیہ ابن العربی" کے نام سے موسوم ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202200415

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں