بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر جلانے کا الزام لگانے والے اور ان کے جنتی ہونے کے منکر اور صحابہ بشمول شیخین کے گستاخ کا حکم


سوال

ایک شخص نے بھری مجلس میں سرِ عام یہ کہا کہ بتول(حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا) کی کوئی بہن نہیں تھی، نیز حضرات شیخین کی شان میں نازیبا الفاظ استعمال کیے،حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا گھر جلانے کا الزام لگایا اور پھر یہ الفاظ کہے :"جو اس کے گھر کو جلانے آیا وہ کیسے جنت میں جا سکے (گا)"

اور یہ کہا کہ بی بی یعنی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا دربار میں کیوں آئی تھیں، پھر یہ اشعار کہے :

"بہروں کی پنچائت میں قرآن سنانے آئی تھی

ان پڑھ کو پیغمبر کی تحریر دکھانے آئی تھی

باغِ فدک کی حاجت کب تھی جنت کی شہزادی کو

وہ تو علی کے دشمن کی اوقات دکھانے آئی تھی"

کیا یہ شخص  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں کا انکار کر کے توہینِ رسالت کا مرتکب ہواہے؟  

اور حضراتِ شیخین رضی اللہ عنہما کے بارے  میں اس نے جو توہین آمیر الفاظ استعمال کیے ہیں، کیا ایسا شخص مسلمان ہو سکتا ہے؟

ایسے شخص کی شریعت میں کیا سزا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کا یہ کہنا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی کوئی بہن نہیں،  خلافِ واقع ہے، اہل سیر کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار صاحب زادیاں( حضرت  زینب ، حضرت رقیہ، حضرت امِ کلثوم اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہن) تھیں ،چاروں حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی حقیقی بیٹیاں تھیں اور چاروں ہی حضرت خدیجہ رضی اللہ وعنہا کے بطن سے تھیں،  البتہ حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا ان تمام بیٹیوں میں افضل ہیں، بلکہ ایک قول کے مطابق سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا تمام دنیا کی عورتوں سے افضل ہیں۔

خلاصہ یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چار حقیقی بیٹیوں کا ثبوت اہلِ سنت والجماعت کے نزدیک مسلم ہے،  اگر کوئی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیٹی کا انکار کرتا ہے تو اس کی وجہ سے توہینِ رسالت کا مرتکب  تو نہیں ہوتا،لیکن  اہلِ سنت والجماعت سے خارج ہو کر گمراہ ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ مذکورہ شخص کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر کو جلانے کی تہمت لگانا صریح جھوٹ و بہتان ہے، حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ اپنی کتاب تحفہ اثنا عشریہ میں اس قصہ کی بابت ارشاد فرماتے ہیں:

"یہ قصہ سراسر بہتان اور بدترین افتراء اور جھوٹ ہے، اس کی کوئی اصلیت نہیں، اس لیے امامیہ حضرات کی اکثریت اس قصہ کی قائل ہی نہیں ہے"۔

(تحفہ اثنا عشریہ مترجم،باب10: خلفاء ثلاثہ اور کبارِ صحابہ پر مطاعن اور ان کے جواب، ص:568، ط: عالمی مجلس تحفظ اسلام)

البتہ جو روایات اس بارے میں نقل کی جاتی ہیں،  ان کو ایسے مصنفین نے ذکر کیا ہے جنہوں نے  اپنی کتابوں میں رطب و یابس کو جمع کر دیا ہے، یعنی صحیح اور مضبوط روایات کو ذکر کرنے کا التزام نہیں کیا ہے، خود وہ روایات محدثین کے بیان کردہ  صحت کے معیارات پر پورا نہیں اترتیں، یعنی ان کی اسانید کے راوی مطعون ہیں، نیز اکثر روایات میں سند کے آخری راوی اور اس واقعہ کے درمیان انقطاعِ زمانی پایا جاتا ہے، یعنی خود یہ شخص اس واقعہ کے وقت موجود نہ تھا اور جس سے سناوہ کون ہے  اور کس درجہ کا ہے،یہ معلوم نہیں ہے۔

اگر بالفرض ان روایات کو صحیح مانا جائے تب بھی انہی روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ  یہ صرف گھر جلانے کی دھمکی تھی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ دھمکی نعوذ باللہ  حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے نہ تھی، بلکہ ان لوگوں کے لیے تھی جنہوں نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر کو خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے خلاف منصوبے بنانے کے لیے اپنا ٹھکانہ بنایا تھا، پھر اگر اس موقع پر حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا، حضرات شیخین سے ناراض ہو گئی تھیں تو بعد میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ان دونوں حضرات سے راضی ہوجانا بھی روایات سے ثابت ہے ( ملاحظہ ہو رحماء بینہم جلد دوم)۔

اس کے برعکس حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا جنتی ہونا خود زبان نبوی علیہ الصلاۃ والسلام سے متعدد روایات میں ثابت ہے، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کی تصریح کے مطابق حضراتِ  شیخین (ابو بکر و عمر)  رضی اللہ عنہما کے لیے جنت کی بشارت کی احادیث تواتر کے درجہ میں ہیں اور ان کا منکر زندیق اور واجب القتل ہے  اور مذکورہ شخص استفہامِ انکاری کے پیرائے میں حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ  کے جنتی ہونے کے انکارسے ان تمام متواتراور متفق علیہ احادیث کا دانستہ طور پر منکر ہوا ہے، چنانچہ یہ شخص زندیق ہے۔

نیز اس شخص نے خط کشیدہ الفاظ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کی جماعت کی  گستاخی کا ارتکاب کیا ہے، خصوصاً حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کیے ہیں،اور شیخین کی گستاخی کرنے والے کے کفر کے بارے میں اگرچہ فقہائے کرام کے اقوال مختلف ہیں، لیکن متعدد فقہاءکرام نے شیخین کے گستاخ کو کافر قرار دیا ہے،چنانچہ فتاویٰ دار العلوم دیوبند میں ہے:

"خلفاء راشدین (پر) سب و شتم کو بھی بہت سےعلماء وفقہاء نے کافر کہا ہے اور بالخصوص عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت رکھنے والوں اور افک کے قائلین کو باتفاق کافر کہا ہے"۔

(کتاب السیر، باب چہارم: احکامِ مرتد،ج:12ص:222، ط:دار الاشاعت)

ایک اور جگہ ہے:

"بے شک ایسا رافضی جو کہ منکرِ صحبتِ صدیق ر ضی اللہ عنہ ہو باتفاق کافر ہےاور اکثر فقہاء نے سبِ شیخین کرنے والے کو بھی کافر کہا ہے ، پس ایسے رافضی کے ساتھ اختلاط و ارتباط رکھنا اور بلا نکیر ان کو مسجد ِ مسلمیں میں آنے دینے اور شریکِ نماز و جماعت کرنا حرام اور ناجائز ہے"۔

(ایضاً ص: 249)

الغرض مذکورہ شخص اہلِ سنت والجماعت سےخارج  ،گمراہ اور ملعون ہے اوربعض فقہاء کرام کی صراحت کے مطابق کافر ہے،ایسے آدمی سے کسی قسم کا تعلق رکھنا جائز نہیں ہے ،  حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تصریح کے مطابق زندیق ہے اور زندیق اگر اپنی گمراہی کی طرف لوگوں کو بلانے والا ہو تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر حکومت کی طرف سے گرفتاری سے پہلے وہ توبہ کر لے تو اس کی تو بہ قبول کی جائے گی اور اگر توبہ سے پہلے اسے گرفتار کر لیا گیا تو پھر اگر وہ توبہ کر بھی لے تب بھی قبول نہیں کی جائے گی، بلکہ اس صورت میں اسے فتنہ بند کرنے کے لیے تعزیراً قتل کیا جائے گا،لیکن یہ بات بھی واضح رہے کہ اس پر سزا جاری کرنا اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے، عام مسلمانوں کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ خود اس پر سزا جاری کرنے کے لیے کوئی اقدام کریں۔

شرح الزرقانی على المواہب اللدنیۃمیں ہے:

"اعلم أن جملة ما اتفق عليه منهم ستة: القاسم وإبراهيم، وأربع بنات: زينب ورقية وأم كلثوم وفاطمة، وكلهن أدركهن الإسلام وهاجرن معه".

(‌‌المجلد الرابع، الفصل الثاني: في ذكر أولاده الكرام عليه وعليهم الصلاة والسلام، 4/ 313، ط:دار التب العلمية)

زاد المعاد فی ہدی خیر العبادمیں ہے:

"وفاطمة أفضل بناته على الإطلاق، وقيل: إنها أفضل نساء العالمين، وقيل: بل أمها خديجة، وقيل بل عائشة، وقيل: بل بالوقف في ذلك".

(فصل في أولاده صلى الله عليه وسلم1/ 101، ط:مکتبة المنار الإسلامية)

مصنف ابن ابی شیبۃ میں ہے:

"37045 - محمد بن بشر ، نا عبيد الله بن عمر ، حدثنا زيد بن أسلم ، عن أبيه أسلم أنه حين بويع لأبي بكر بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم كان علي والزبير يدخلان على فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم فيشاورونها ويرتجعون في أمرهم ، فلما بلغ ذلك عمر بن الخطاب خرج حتى دخل على فاطمة فقال: «يا بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم ، والله ما من أحد أحب إلينا من أبيك، وما من أحد أحب إلينا بعد أبيك منك، وايم الله ما ذاك بمانعي إن اجتمع هؤلاء النفر عندك ; أن أمرتهم أن ‌يحرق ‌عليهم ‌البيت» ، قال: فلما خرج عمر جاءوها فقالت: تعلمون أن عمر قد جاءني وقد حلف بالله لئن عدتم ليحرقن عليكم البيت وايم الله ليمضين لما حلف عليه، فانصرفوا راشدين، فروا رأيكم ولا ترجعوا إلي، فانصرفوا عنها فلم يرجعوا إليها حتى بايعوا لأبي بكر".

(‌‌كتاب المغازي، ما جاء في خلافة أبي بكر وسيرته في الردة، 7/ 432، ط:  مکتبة الرشد)

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ المسوی شرح الموطا میں فرماتے ہیں:

"بيان ذلك أن المخالف للدين الحق إن لم يعترف به ولم يذعن له لا ظاهرا ولا باطنا فهو الكافر وإن اعترف بلسانه وقلبه على الكفر فهو المنافق وإن اعترف به ظاهرا وباطنا لكنه يفسر بعض ما ثبت من الدين ضرورة بخلاف ما فسره الصحابة التابعون وأجمعت عليه الأمة فهو الزنديق كما إذا اعترف بأن القرآن حق وما فيه من ذكر الجنة النار حق لكن المراد بالجنة الابتهاج الذي حصل بسبب الملكات المحمودة والمراد بالنار هي الندامة التي تحصل بسبب الملكات المذمومة وليس في الخارج جنة ولا نار فهو الزنديق...وكذلك من قال في الشيخين أبي بكر وعمر مثلا ليسا من أهل الجنة مع تواتر الحديث في بشارتهما...فذلك هو الزنديق وقد اتفق جماهير المتأخرين من الحنفية والشافعية على قتل من يجري هذا المجرى والله أعلم".

(كتاب أحكام الخلافة، باب حكم الخوارج والقدرية وأشباههم، 2/ 268-269، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"الرافضي إذا كان ‌يسب الشيخين ويلعنهما والعياذ بالله، فهو كافر".

(كتاب السير،الباب التاسع في أحكام المرتدين، 2/ 264 ، ط:رشيدية)

الجوهرۃ النيرۃ میں ہے:

"ومن ‌سب ‌الشيخين أو طعن فيهما يكفر ويجب قتله ثم إن رجع وتاب وجدد الإسلام هل تقبل توبته أم لا قال الصدر الشهيد لا تقبل توبته وإسلامه وبه أخذ الفقيه أبو الليث السمرقندي وأبو نصر الدبوسي وهو المختار للفتوى".

(كتاب السير،2/ 276، ط: المطبعة الخيرية)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق  میں ہے:

"الثانية الردة بسب الشيخين أبي بكر وعمر - رضي الله عنهما - وقد صرح في الخلاصة والبزازية بأن الرافضي إذا سب الشيخين وطعن فيهما كفر وإن فضل عليا عليهما فمبتدع".

(كتاب السير، باب أحكام المرتدين5/ 136، ط:دار الكتاب الإسلامي)

الدر المختار میں ہے:

"(أو) الكافر بسب (الشيخين أو) بسب (أحدهما) في البحر عن الجوهرة معزيا للشهيد من سب الشيخين أو طعن فيهما كفر ولا تقبل توبته، وبه أخذ الدبوسي وأبو الليث، وهو المختار للفتوى انتهى...لكن في النهر وهذا لا وجود له في أصل الجوهرة، وإنما وجد على هامش بعض النسخ، فألحق بالأصل مع أنه لا ارتباط له بما قبله انتهى".

وفي الحاشية تحته:

"(قوله لكن في النهر إلخ)...أقول: نعم نقل في البزازية عن الخلاصة أن الرافضي إذا كان يسب الشيخين ويلعنهما فهو كافر، وإن كان يفضل عليا عليهما فهو مبتدع. اهـ.

وهذا لا يستلزم عدم قبول التوبة. على أن الحكم عليه بالكفر مشكل... فعلم أن ما ذكره في الخلاصة من أنه كافر قول ضعيف مخالف للمتون والشروح بل هو مخالف لإجماع الفقهاء كما سمعت. وقد ألف العلامة منلا علي القاري رسالة في الرد على الخلاصة، وبهذا تعلم قطعا أن ما عزي إلى الجوهرة من الكفر مع عدم قبول التوبة على فرض وجوده في الجوهرة باطل لا أصل له ولا يجوز العمل به، وقد مر أنه إذا كان في المسألة خلاف ولو رواية ضعيفة، فعلى المفتي أن يميل إلى عدم التكفير، فكيف يميل هنا إلى التكفير المخالف للإجماع فضلا عن ميله إلى قتله وإن تاب، وقد مر أيضا أن المذهب قبول توبة ساب الرسول - صلى الله عليه وسلم - فكيف ساب الشيخين... نعم لا شك في تكفير من قذف السيدة عائشة - رضي الله تعالى عنها - أو أنكر صحبة الصديق، أو اعتقد الألوهية في علي أو أن جبريل غلط في الوحي، أو نحو ذلك من الكفر الصريح المخالف للقرآن، ولكن لو تاب تقبل توبته، هذا خلاصة ما حررناه في كتابنا تنبيه الولاة والحكام...وأما الرافضي ساب الشيخين بدون قذف للسيدة عائشة ولا إنكار لصحبة الصديق ونحو ذلك فليس بكفر فضلا عن عدم قبول التوبة بل هو ضلال وبدعة".

(كتاب الجهاد، باب المرتد،، مطلب مهم في حكم سب الشيخين، 4/ 236، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"(و) كذا الكافر بسبب (الزندقة) لا توبة له، وجعله في الفتح ظاهر المذهب، لكن في حظر الخانية الفتوى على أنه (إذا أخذ) الساحر أو الزنديق المعروف الداعي (قبل توبته) ثم تاب لم تقبل توبته ويقتل، ولو أخذ بعدها قبلت".

وفي الرد:

"(قوله وكذا الكافر بسبب الزنديق) قال العلامة ابن كمال باشا في رسالته...اعلم أنه لا يخلو، إما أن يكون معروفا داعيا إلى الضلال أو لا. والثاني ما ذكره صاحب الهداية في التجنيس من أنه على ثلاثة أوجه: إما أن يكون زنديقا من الأصل على الشرك، أو يكون مسلما فيتزندق، أو يكون ذميا فيتزندق، فالأول يترك على شركه إن كان من العجم، أي بخلاف مشرك العرب فإنه لا يترك. والثاني يقتل إن لم يسلم لأنه مرتد. وفي الثالث يترك على حاله لأن الكفر ملة واحدة اهـ والأول أي المعروف الداعي لا يخلو من أن يئوب بالاختيار ويرجع عما فيه قبل أن يؤخذ أولا، والثاني يقتل دون الأول اهـ وتمامه هناك".

(‌‌أيضاً، 4/ 242- 241)

لسان العرب  میں ہے:

"والسب: الشتم، وهو مصدر سبه يسبه سبا: شتمه؛ وأصله من ذلك. وسببه: أكثر سبه".

(‌‌حرف الباء،‌‌فصل السين المهملة، 1/ 455، ط:دار صادر)

وفیہ ایضاً:

"شتم: الشتم: قبيح الكلام وليس فيه قذف. والشتم: السب".

(‌‌حرف الميم، ‌‌فصل الشين المعجمة، 12/ 318)

فقط والله أعلم

مزید دیکھیے:

کیا حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر کے دروازے کو آگ لگائی تھی؟


فتوی نمبر : 144306100596

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں