بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سماع الانبیاء اور عقیدہ حیات الانبیاء کے بارے میں چند وضاحتیں


سوال

بعض حضرات کہتے  ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف کے قریب درود شریف پڑھا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں سنتے اور جتنی اس قسم کی روایات ہیں ان کے راوی شیعہ ہیں، اس کی وضاحت فرمائیں، کیا واقعی یہی بات ہے؟ ایسے کہنے والے کے پیچھے نماز کا کیا حکم ہے؟ 

جواب

واضح رہے  کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارکہ کے قریب جو درود پڑھا جائے،  آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس اس کو سماعت فرماتے ہیں اور جو  درود دور سے پڑھائے جائے وہ آپ علیہ الصلاہ والسلام کو پہنچا دیا جاتا ہے اور یہ مضمون مستند احادیث مبارکہ سے ثابت ہے،مسئلہ سماع الانبیاء متفق علیہ مسئلہ ہے ۔

چنانچہ   مفتی رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"مگر انبیاء علیم السلام کے سماع میں کسی  کو اختلاف نہیں ہے۔"

( فتاوی رشیدیہ،ج:ا،ص:220،طباعت:المکتبۃ الحنفیۃ)

اور اس مسئلے کا تعلق مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، جس  کے متعلق اہل السنہ والجماعہ کا اجماعی عقیدہ جو چودہ صدیوں سے امت میں متوارث ہے، جسے علماء دیوبند رحمہم اللہ تعالیٰ نے اختیار کیا ہے۔ترجمانِ دار العلوم دیوبند و سابق مہتمم دار العلوم دیوبند حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں :مسئلہ زیرِ بحث حیات النبیﷺ میں جہاں تک اپنے بزرگوں کی کتابوں، فتاویٰ ،مقالات اور متوارث ذوق کا تعلق ہے، دیوبندیت تو یہی ہے کہ برزخ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حیاتِ دنیوی کے ساتھ زندہ مانا جائے۔ (بحوالہ خیر الفتاوی ،جلد اول ص 187،ط: مکتبہ امدادیہ ملتان)

جہاں تک  ان جیسی  روایات کے راویوں کے بارے میں شیعہ ہونے كاالزام  ہے،یہ بے بنیاد الزام ہے،  اولاً یہ مسئلہ صرف ایک  حدیث یا  دو حدیث سے ثابت نہیں ہے، بلکہ اس پر آیات قرانی اور احادیث متواتر ، اجماع امت، قوی دلائل موجود ہے، اور جب احادیث  حیات النبی ﷺ کو محدثین امت نے متوا تر  کہا ہے، تو اسی بنیاد پر راویوں کے بارے میں بحث  کی ضرورت بھی نہیں کیوں کہ متواتر میں رجال سے بحث نہیں کی جاتی ،  باقی  محدثین کے ہاں شیعہ راوی کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ:

 جب تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شروع میں تشیع محض ایک سیاسی رجحان تھا جو بنو امیہ کے مقابلے میں اہل بیت کے لیے مسلمانوں کے بعض گروہوں میں موجود تھا،اور اس رجحان نے بہت بعد میں غلو کی صورت میں رافضیت کی شکل اختیار کی ہے،چنانچہ متقدمین کےنزدیک شیعہ اورروافض میں بہت فرق ہے،  ان کامعاملہ آج کل کےشیعہ حضرات کی طرح نہ تھاکہ ان کے روافض کے مابین کچھ فرق وامتیاز نہیں رہا ، متقدمین کےنزدیک شیعہ سےمرادوہ لوگ تھے جوصرف تفضیل کے قائل تھے یعنی علی رضی اللہ عنہ کوعثمان رضی اللہ عنہ سےافضل جانتےتھے،اگرچہ عثمان رضی اللہ عنہ کوبرحق امام اورصحابی سمجھتے تھے۔اس طرح کے کچھ لوگ اہل سنت میں بھی گذرے ہیں جو علی رضی اللہ عنہ کوعثمان رضی اللہ عنہ سےافضل قراردیتےتھےلہذایہ ایسی بات نہیں جوبہت بڑی قابل اعتراض ہو،ہاں کچھ غالی شیعہ شیخین ابوبکروعمررضی اللہ عنہما سےعلی رضی اللہ عنہ کوافضل سمجھتےتھےاگرچہ وہ شیخین رضی اللہ عنہماکےمتعلق اس عقیدہ کے حامل بھی تھے کہ وہ برحق امام اورصحابی رضی اللہ عنہم تھےلیکن علی رضی اللہ عنہ کوافضل قراردیتے تھے اوران کی بات زیادہ سےزیادہ بدعت کےزمرہ میں آتی ہے ، خلاصہ یہ ہے،کہ اسلام کے ابتدائی زمانے میں صرف ان لوگوں پر شیعہ کا اطلاق ہوتا تھا،جو تفضیل شیخین کے قائل نہیں تھے، باقی موجودہ زمانے مین  جو شیعہ کا اطلاق ہے، وہ اس سے الگ ہے۔

حدیث اور بدعتی راوی:
کسی بھی راوی کے مقبول ہونے کے لیے دو بنیادی شرطیں ہیں :
١۔ اس کا حافظہ قابل اعتماد ہو
٢۔ صاحب عدالت ہو ۔
ہمارا زیر بحث مسئلہ دوسری شرط سے متعلق ہے ،  کیوں کہ عدالت کی شرط سے بدعتی راوی خارج ہوجاتے ہیں ،  اور تشیع یا رفض ایک بدعت ہے،  لہذا اصل یہ ہے کہ کسی بھی غالی شیعہ یا رافضی کی روایت کو قبول نہیں کیا جائے گا چاہے وہ حفظ و ضبط کا پہاڑ ہی کیوں نہ ہو ، لیکن بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوتی کیوں کہ مبتدعہ کی بہت ساری اقسام ہیں مختلف اصناف ہیں کچھ ایسے ہیں جن کی بدعت ان کی روایت پر اثر انداز نہیں ہوتی یا وہ کسی بدعت صغری میں مبتلا ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ وہ نیک صادق اللہجہ اور دین دار ہوتے ہیں جب کہ کچھ روای اس کے بر عکس ہوتے ہیں اور جھوٹ بولنا اور تقیہ کرنا ان کے نزدیک جزو ایمان ہے جیساکہ حافظ ذہبی نے لکھا ،اس لیے محدثین نے اس سلسلے میں کچھ شروط ذکر کیں کہ کن کن بدعتیوں کی روایات کن کن حالات میں قبول ہوں گی (علوم الحدیث لابن الصلاح اور اس کے متعلقات میں تفصیل ملاحظہ کی جا سکتی ہے )اس سلسلے میں جو راحج مذہب اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ بدعتی کی روایت چند شرائط کے ساتھ مقبول ہے۔
1. وہ صدوق ہومتہم بالکذب نہ ہو،عادل ہو۔
2. بدعت مکفرہ میں مبتلا نہ ہو ۔
3. بدعت کی طرف دعوت نہ دیتا ہو ۔
4. اس کی روایت میں کوئی ایسی چیز نہ ہو جس سے اس کے بدعتی مذہب کی تائید ہو رہی ہو ۔
یہ موٹی موٹی شرائط ہیں جن کی موجودگی میں کسی بدعتی کی روایت کو قبول کیا جائے گا ۔ لیکن ایک بات ذہن میں رکھیں چونکہ یہ دو جمع دو برابر چار حساب کے قواعد نہیں لہذا بعض جگہوں پر محدثین نے ان قواعد سے اختلاف بھی کیا ہے مطلب کئی جگہوں پر ان شرائط سے تساہل کیا ہے اور بعض مقامات پرتشدد بھی کیا ہے اور یہ سب کچھ دلائل و قرائن کے ساتھ تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ یہ خواہشات نفس کی پیروی ہے ۔

 اس  تمہید کے علاوہ جو احادیث مبارکہ حیات النبی ﷺ یا سماع النبی ﷺ فی القبر کے بارے میں  مروی ہیں، ان میں سے   ہر ایک  حدیث  کے بارے میں کئی محدثین سے صحیح کہنا بھی ثابت  ہے،  یہاں تک کہ تواتر کا  قول  ہے، تو بلاشبہ  حیات النبی ﷺ، اور قبر سماع النبی ﷺ  کے احادیث کے راوی کو شیعہ کہہ کر اس عقیدہ سلف کے مخا لفت کرنا  کم فہمی اور اکابر سے بے زاری کا نتیجہ ہے۔

لہٰذا منکر حیات النبی ( چاہے اس کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو ) اہل السنہ والجماعہ سے خارج، مبتدع اور اہل ہویٰ میں سے ہے، دیوبندیت سے اس کا دور کا بھی تعلق نہیں ، ایسے لوگوں کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی  ہے۔

متعددروایات صحیحہ اس عقیدہ پر ملاحظہ ہو:

1: حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے:  

"الأنبیاء أحیاء في قبورهم یصلّون".

(شفاء السقام في زیارۃ خیرالأنام للسبکي، الباب التاسع في حیاۃ الأنبیاء علیہم الصلاۃ والسلام ،الفصل الثالث في سائرالموتٰی…، ص:180، ط:مطبعة مجلس دائرۃ المعارف العثمانیة حیدرآباد دکن)

ترجمہ: ”انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور وہ نماز پڑھتے ہیں“۔ 

(وکذا فی فتح الباري لابن حجرالعسقلاني، کتاب أحادیث الأنبیاء، باب قول ﷲ تعالی: { وَاذْکُرْفِی الْکِتٰبِ مَرْیَمَ…}،ج:6، ص:487، ط: رئاسة إداراة البحوث العلمیة والإفتاء … بالسعودیة)

(وکذا فتح الملھم للشیخ العثماني، کتاب الإیمان، باب الإسراء برسول اﷲ، وفرض الصلاۃ…، ج:1، ص:329، ط:مدینة پریس بجنور)

مجمع الزوائد میں ہے:

"رواه أبو يعلى والبزار، ورجال أبي يعلى ثقات."

(كتاب فيه ذكر الأنبياء، باب ما جاء في الخضر عليه السلام، ج:8، ص:211، رقم:13812، ط:مكتبة القدسي)

فیض القدیر میں ہے:

"و هذاحدیث صحیح."

(حرف الهمزة، فصل في المحلى بأل من هذا الحرف أي حرف الهمزة وهو ختامه، ج: 3، ص: 184، ط:المكتبة التجارية الكبريٰ)

فتح الباري ميں هے:

"أخرجه من طريق يحيى بن أبي كثير وهو من رجال الصحيح عن المستلم بن سعيد وقد وثقه أحمد وبن حبان عن الحجاج الأسود وهو بن أبي زياد البصري وقد وثقه أحمد وبن معين عن ثابت عنه وأخرجه أيضا أبو يعلى في مسنده من هذا الوجه."

(جز 6، قوله باب قول الله تعالى واذكر في الكتاب مريم إذ انتبذت من أهلها، ج:6، ص:479، ط:دار المعرفة۔بيروت)

علامہ شوکانی نے لکھا ہے:

"وقد ثبت في الحدیث: أنّ الأنبیاء أحیاء في قبورھم. رواہ المنذري وصَحَّحَه البیهقي."

(نيل الأوطار، أبواب الجمعة، ‌‌باب إنعقاد الجمعة بأربعين وإقامتها في القرى، ،ج:3، ص:295، ط:دار الحديث۔مصر)

2:مسند امام احمد میں ہے: 

"قال عليه الصلاة والسلام : ما من أحد يسلم عليّ إلا رد الله عليّ روحي حتي أرد عليه السلام. "

(المسند للإمام أحمدبن حنبل،مسند أبي ھریرۃ رضي اﷲ عنه، ج:9، ص:575، رقم :10759، ط:دارالحدیث۔ القاھرۃ)

ترجمہ:   ’’کوئی شخص ایسا نہیں جو مجھ پر سلام پڑھتا ہو،  مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ میری روح کو مجھ پر لوٹادیتا ہے،  یہاں تک کہ میں اس کا جواب دیتا ہوں۔‘‘ 

الأذكار للنووي ميں هے: 

"ما من أحد يسلم علي إلا رد الله علي روحي حتي أرد عليه السلام."

(كتاب الصلاة علي رسول اللهﷺ، باب أمر من ذكر عنده النبيﷺ بالصلاۃ عليه والتسليم، ص:115، ط:دار الفكر۔ بيروت) 

ریاض الصالحین میں ہے:

"رواه أبو داود بإسناد صحيح."

(كتاب الصلاة على رسول الله ﷺ، باب الأمر بالصلاة عليه وفضلها وبعض صيغها، ص:387، ط:دار ابن کثیر۔بیروت)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"رواه أبو داود والبيهقي في الدعوات الكبير."

(کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ علی النبی ﷺ وفضلھا، الفصل الثانی، ج:1، ص:291، رقم:925، ط:المکتب الإسلامي۔بيروت)

3: حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

"‌إن ‌من ‌أفضل ‌أيامكم ‌يوم ‌الجمعة، فيه خلق آدم، وفيه النفخة، وفيه الصعقة، فأكثروا علي من الصلاة فيه فإن صلاتكم معروضة علي"، فقال رجل: يا رسول الله كيف تعرض صلاتنا عليك وقد أرمت؟ يعني بليت فقال: "إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء."

(سنن أبي داوٗد،کتاب الصلاۃ، باب تفریع أبواب الجمعة،ج:1، ص:150، ط:میر محمد کراچی۔ سنن النسائي،کتاب الجمعة، إکثار الصلاۃعلی النبيّ، ج:1، ص:203/204، ط:قدیمی کراچی)

ترجمہ:  ’’بے شک تمہارے افضل ترین ایام میں سے  ”یومِ جمعہ“ ہے،  اس میں حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پیدا کیا گیا،  اسی روز ان کی وفات ہوئی، اسی روز ”نفخہ اولیٰ“ ہوگا اور اسی روز میں ”نفخہ ثانیہ“ ہوگا،  اس جمعہ کے روز تم لوگ کثرت کے ساتھ مجھ پر درود بھیجاکرو؛  کیوں  کہ تمہارا درودوسلام مجھ پر پیش کیا جاتا ہے،  راوی کہتے ہیں کہ :  صحابۂ کرام نے سوال کیا : یا رسول اللہ  ! بعد ِوفات دیگر اموات کی طرح آپ بھی تو ریزہ ریزہ ہوجائیں گے، پھر ہمارا درود آپ پر کیسے پیش کیا جائے گا؟ پس آپ نے فرمایا:  اللہ نے زمین پر حضراتِ انبیاء علیہم السلام کے اجسام کو حرام کردیا ہے، زمین ان کو کھا نہیں سکتی، فنا نہیں کرسکتی۔‘‘

مذکورہ حدیث کے بارے میں امام شوکانی کی فیض القدیر میں ہے:

"قال في التقريب: وهو غير أوس بن أبي أوس الثقفي على الصحيح قال الحاكم على شرط البخاري انتهى."

(مقدمة المؤلف، حرف الهمزة، ج:2، ص:535، رقم:2480، ط:المكتبة التجارية الكبري۔مصر)

عون المعبود و حاشیۃ ابن القیم میں ہے:

"قال بن حجر المكي وما أفاده من ثبوت حياة الأنبياء حياة بها يتعبدون ويصلون في قبورهم مع استغنائهم عن الطعام والشراب كالملائكة أمر لا مرية فيه وقد صنف البيهقي جزأ في ذلك

قال المنذري وأخرجه النسائي وبن ماجه وله علة دقيقة أشار إليها البخاري وغيره وقد جمعت طرقه في جزء

وفي النيل بعد سرد الأحاديث في هذا الباب ما نصه وهذه الأحاديث فيها مشروعية الإكثار من الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم يوم الجمعة وأنها تعرض عليه صلى الله عليه وسلم وأنه حي في قبره

وقد أخرج بن ماجه بإسناد جيد أنه صلى الله عليه وسلم قال لأبي الدرداء إن الله عز وجل حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء وفي رواية للطبراني ليس من عبد يصلي علي إلا بلغني صلاته قلنا وبعد وفاتك قال وبعد وفاتي إن الله عز وجل حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء وقد ذهب جماعة من المحققين إلى أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم حي بعد وفاته وأنه يسر بطاعات أمته وأن الأنبياء لا يبلون مع أن مطلق الإدراك كالعلم والسماع ثابت سائر الموتى."

(كتاب الركوع والسجود، باب فضل يوم الجمعة وليلة الجمعة، ج:3، ص:261، ط:دار الكتب العلمية۔بيروت)

علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا:

"هذا حديث صحيح على شرط البخاري."

(كتاب الجمعة، ج:1، ص:413، رقم:1029،  ط:دار الكتب العلمية۔بيروت)

4: حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کی روایت ہے:

" فنبي الله حي يرزق."

(سنن ابن ماجة، أبواب ماجاء في الجنائز، باب ذکر وفاته ودفنها، ص:118، ط:قدیمی کراچی)

ترجمہ: ’’پس اللہ کے نبی زندہ ہیں،  ان کو رزق دیا جاتا ہے۔‘‘

"ملا علی القاری کی مرقاة المفاتيح" ميں ہے:

"قال ميرك: ورواه ابن حبان في صحيحه، والحاكم وصححه، وزاد ابن حجر بقوله وقال: صحيح على شرط البخاري، ورواه ابن خزيمة في صحيحه. (والبيهقي في الدعوات الكبير) : قال النووي: إسناده صحيح."

(كتاب الصلاة ،باب الجمعة، ج:3، ص:1017، ط:دار الفكر۔بيروت)

ميزان الاعتدال ميں هے:

"روى عنه سعيد بن أبي هلال فقط، لكن ذكره ابن حبان في الثقات على قاعدته."

(حرف الزاي، زيد بن جبيرة "ت، ق" أبو جبيرة الأنصاري، ج:2، ص:99، ط:دار المعرفة۔بيروت)

حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"قلت: رجاله ثقات."

(تهذیب التھذیب، المجلد الثالث، من اسمه زيد، ج:3، ص:398، ط:مطبعة دائرة المعارف النظامية۔الهند)

5:  حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:

"إنّ لله ملائکة في الأرض سیّاحین یبلغونني من أمّتي السلام."

(سنن النسائي،کتاب السھو،باب التسلیم علی النبيّ، ج:1، ش:189، ط:قدیمی کراچی۔المسند للإمام أحمد بن حنبل،مع التعلیق لأحمد محمدشاکر،مسند عبداﷲ بن مسعود، رقم الحدیث:3444،ج:3، ص:534، ط: دارالحدیث القاھرۃ)

ترجمہ: ’’نبی علیہ السلام نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ ایسے فرشتے مقرر ہیں،  جو زمین میں گھومتے ہیں اور میری امت کا سلام مجھے پہنچاتے ہیں۔‘‘

علامہ محدث ابن حجر  ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"رواہ البزّار ورجاله الثقات."

(مجمع الزوائد، كتاب الأذكار، باب ما يقول إذا انفلتت دابته أو أراد غوثا أو أضل شيئا، ج:10، ص:132، رقم:17100، ط:مكتبة القدسي۔القاهرة)

مسند أحمد ميں هے:

"إسناده صحيح، عبد الله بن السائب الكندي: ثقة، وثقه ابن معين وأبو حاتم والنسائي وغيرهم."

(مسند العشرة المبشرين بالجنة، مسند عبدالله ابن مسعود رضي الله تعالي عنه، ج:3، ص:536، رقم:3665، ط:دار الحديث۔القاهرة)

6:  حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ دوسری حدیث میں فرماتے ہیں:

"قال عليه الصلاة والسلام : من صلي علي عند قبري سمعته، ومن صلي علي عند بعيد أعلمته".

(جلاء الأفھام في الصلاۃ والسلام علی خیرالأنام للحافظ ابن قیّم الجوزیّة، باب ماجاء في الصلاۃ علی رسول ﷲ، ص:19 ط:دارالطباعة المحمدیة بالأزھر بالقاھرۃ)

ترجمہ:  ’’رسول الله ﷺ نے فرمایا: جس نے بھی میری قبر پر درود پڑھا تو میں اسے خود سنتا ہوں اور جس نے مجھ پر دور سے درودوسلام پڑھا توبواسطہ فرشتہ مجھے بتلادیاجاتاہے۔‘‘

فتح الباري ميں هے:

"بسند جیّد".

"وأخرجه أبو الشيخ في كتاب الثواب بسند جيد بلفظ من صلى علي عند قبري سمعته ومن صلى علي نائيا بلغته"

(جز:6، قوله باب قول الله تعالى واذكر في الكتاب مريم إذ انتبذت من أهلها، ج:6، ص:488، ط:دار المعرفة۔بيروت)

امام سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"وسندہ جیّد".

(القول البدیع، الباب الرابع في تبليغه - صلى الله عليه وسلم - سلام من يسلم عليه ورده السلام، ص: 159، ط:دار الريان للتراث)

شارح مشکوٰۃ ملاعلی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"رواه البيهقي في شعب الإيمان : قال ميرك نقلا عن الشيخ: ورواه أبو الشيخ، وابن حبان في كتاب: ثواب الأعمال، بسند جيد."

(مرقاة المفاتيح، كتاب الصلاة، باب الصلاة علي النبي ﷺ وفضلها، ج:2، ص:749، رقم:934، ط:دار الفكر۔بيروت)

7:  واقعۂ معراج کو نقل کرنے والے بہت سے صحابۂ کرام فرماتے ہیں کہ:  نبی کریم ﷺ کی وہاں پر انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام خاص کر حضرت آدم علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسٰی علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت عیسٰی علیہ السلام،حضرت یحییٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، ظاہر ہے کہ یہ ملاقات آپ کی جسمانی تھی،  یہ حضرات سب عالمِ برزخ میں تھے، نبی کریم ﷺ عالم ِدنیا میں۔

سیر اعلام النبلاء میں ہے:

"قال أنس: فذكر أنه وجد في السموات: آدم، وإدريس، وعيسى، وموسى، وإبراهيم، ولم يثبت -يعني أبا ذر- كيف منازلهم، غير أنه ذكر أنه وجد آدم في السماء الدنيا، وإبراهيم في السادسة، فلما مر جبريل ورسول الله صلى الله عليه وسلم بإدريس، قال: مرحبا بالنبي الصالح والأخ الصالح. قال: ثم مر، "قلت: من هذا؟ قال: إدريس، قال: ثم مررت بموسى فقال: مرحبا بالنبي الصالح، والأخ الصالح. قلت: من هذا؟ قال: موسى. ثم مررت بعيسى، فقال: مرحبا بالنبي الصالح والأخ الصالح. قلت: من هذا؟ قال: عيسى. ثم مررت بإبراهيم، فقال: مرحبا بالنبي الصالح، والابن الصالح. قلت: من هذا؟ قال: إبراهيم."

(سيرة1، ذكر معراج النبي صلي الله عليه وسلم، ص:211، ط:مؤسسة الرسالة)

8: نیز ایک حدیث میں ہے کہ:  حضرت موسٰی علیہ الصلوٰۃ  والسلام کے روضۂ  شریف سے آپ کا گزر ہوا تو آپ ﷺ نے ان کو قبر میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے،  جس بنا  پر علامہ محمدانورشاہ کشمیری رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’یہ حدیثیں دلیل ہیں کہ:  انبیاء علیہم السلام قبر شریف میں زندہ ہیں۔‘‘

"و هذا علی إثبات حیاۃ الأنبیاء في القبور علی شاکلة حدیث … و قدجآء عند مسلم أیضاً في صلاۃ موسٰی : مررت بموسٰی لیلة أسري بي عند الکثیب الأحمر، و هو قائم یصلّي في قبرہ."

(عقیدۃ الإسلام للعلامة الکشمیري، إنّ الأنبیاء أحیاء في قبورھم یصلّون، ص:35، ط:حاشر پبلشنگ کمپنی کراچی)

9: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ایک تیسری حدیث روایت کرتے ہیں:

"قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰه یَقُوْلُ : لَا تَجْعَلُوْا بُیُوْتَکُمْ قُبُوْرا وَّلَّا تَجْعَلُوْا قَبَرِيْ عِیْداً، وَصَلُّوْا عَلَيَّ، فَإِنَّ صَلَاتَکُمْ تُبَلَّغُنِيْ حَیْثُ کُنْتُمْ". 

( مشکاۃ المصابیح،کتاب الصلاۃ،باب الصلاۃ علی النبيّاوفضلھا،الفصل الثاني، ص:84، ط:قدیمی کتب خانه کراچی)

ترجمہ: ’’ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:  نبی علیہ الصلوٰۃ  والسلام سے فرماتے ہوئے میں نے سنا کہ: ” تم لوگ اپنے گھروں کو قبر کی طرح خاموش گھر نہ بناؤ، بلکہ اس میں نماز، تلاوت وغیرہ کیا کرو ، اور یہ کہ میری قبر کو میلہ مت بناؤ ، اور یہ کہ تم لوگ مغرب یا مشرق میں جہاں بھی ہو، مجھ پر درود بھیجا کرو؛ کیوں  کہ ہر شخص کا درود مجھ تک پہنچایاجاتا ہے۔‘‘

10: حدیث شریف میں ہے کہ : حضرت عیسٰی علیہ السلام جب دنیا میں نزول فرمائیں گے ،  حج وعمرہ کے بعد روضۂ اطہر ﷺ کے پاس زیارت کے لیے جائیں گے اور آپ ”درودوسلام “پڑھیں گے اور نبی علیہ السلام ” درودوسلام “کا جواب بھی دیں گے۔

"وإنّي أولی الناس بعیسٰی بن مریم… وإنّه نازل… ثمّ تقع الأمنة علی الأرض… وأخرج الحاکم وصحّحه عن أبي هریرۃ قال: قال رسول اﷲ: لیهبطنّ ابن مریم حکمًا، عدلًا، وإمامًا مقسطاً، ولیسلکنّ فجًّا حاجًّا أومعتمرًا ولیأتینّ قبري، حتّٰی یسلّم عليّ ولأردنّ علیه…الخ."

(عقیدۃ الإسلام للعلامة الشیخ الکشمیري، إنّ الأنبیاء أحیاء في قبورھم یصلّون…، ص:34، ط: حاشرپبلشنگ کمپنی کراچی)

نزول عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں احادیث کو نقل کرتے ہوئے حضرت علامہ محمدانورشاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:  حضرت عیسٰی بن مریم علیہ السلام ضرور آسمان سے اتریں گے،  وہ زمین کو عدل وانصاف سے بھردیں گے، وہ اس وقت سب کے پیشوا ہو ں گے اور دوردراز سفر کرکے جب حج وعمرہ سے تشریف لائیں گے، تو روضۂ اطہر ﷺ کے پاس حاضری دیں گے اور آپ ﷺ ان کے صلوٰۃ وسلام کا جواب دیں گے۔   

 ’’فیض الباري‘‘ میں ہے:

"أقول: والأحادیث في سمع الموات قد بلغت مبلغ التواتر ۔۔۔ فلا بد بالتزام السماع في الجملة.... فلذا قلت بالسماع في الجملة."

(فیض الباری ، ج:1، ص:467، ط:حجازی، قاهرہ) 

’’فتح الملھم‘‘ میں شیخ الاسلام شبیر احمد عثمانی ؒ فرماتے ہیں:

’’والذي تحصلنا من النصوص واللّٰہ أعلم أن سماع الموتٰی ثابت في الجمله بالأحادیث الکثیرۃالصحیحة."       

  (فتح الملھم ، ج:۲،ص:۴۷۹،ط:ادارۃ القرآن)

’’أحکام القرآن للتھانوی ؒ‘‘میں ہے:

"والذي ذکرہ في الروح من طوائف أهل العلم وذکر ابن عبد البر أن الأکثرین علی ذلک یعنی سماعهم في الجملة ہو الحق الحقیق بالقبول وإلیه یرشد صیغة القرآن وشان النزول وبه تتوافق الروایات من الصحابة والرسول وهو مختار مشایخنا."

           (احکام القرآن للتھانوی ؒ،ج:3،ص:145،ط:ادارۃ القرآن)  

   حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ ان آیات کے بارے میں لکھتے ہیں:

"وإذاثبت أنّھم أحیاء من حیث النقل، فإنّه یقوّیه من حیث النظر کون الشھداء بنصّ القرآن، والأنبیاء أفضل من الشھداء".

(فتح الباري للحافظ ابن حجر العسقلاني، کتاب الأنبیاء،باب قول اﷲ تعالیٰ: {وَاذْكر فِی الْکِتٰبِ مَرْیَمَ…}،ج:6، ص:488،ط:رئاسة إدارات البحوث العلمیة…بالسعودیة)

"الفتاوى الفقهية الكبرى لابن حجر الهيتمي"میں ہے:

"الإجماع على ‌حياة ‌الأنبياء كما تواترت به الأخبار."

(الفتاوى الفقهية الكبرى لأحمد بن محمد بن علي بن حجر الهيتمي السعدي الأنصاري، شهاب الدين شيخ الإسلام، أبو العباس (ت ٩٧٤هـ)، ج:٢. ص:١٣٥، ط: المكتبة الإسلامية)

"نظم المتناثر من الحديث المتواترللكتاني" میں ہے:

"(‌حياة ‌الأنبياء في قبورهم) .

‌حياة ‌الأنبياء في قبورهم قال السيوطي في مرقات الصعود ‌تواترت بها الأخبار وقال في أنباء الأذكياء بحياة الأنبياء ما نصه حياة النبي صلى الله عليه وسلم في قبره وسائر الأنبياء معلومة عندنا علماً قطعياً لما قام عندنا من الأدلة في ذلك وتواترت به الأخبار الدالة على ذلك وقد ألف الإمام البيهقي رحمه الله جزءاً في ‌حياة ‌الأنبياء عليهم الصلاة والسلام في قبورهم اهـ."

(نظم المتناثر من الحديث المتواترلأبي عبد الله محمد بن أبي الفيض جعفر بن إدريس الحسني الإدريسي الشهير بـ الكتاني (ت ١٣٤٥هـ)،ص:127،  الرقم:116 ، ط: دار الكتب السلفية - مصر)

"شرح نخبة الفكر في مصطلحات أهل الأثرلعلي القاري "میں ہے:

"المتواتر: لا يبحث عن رجاله: 

(‌والمتواتر ‌لا ‌يبحث ‌عن ‌رجاله) أي عن صفاتهم.(بل يجب العمل به من غير بحث) لإيجابه اليقين."

(شرح نخبة الفكر في مصطلحات أهل الأثرلعلي بن (سلطان) محمد، أبو الحسن نور الدين الملا الهروي القاري (ت ١٠١٤هـ)،ص:186، ط: دار الأرقم - لبنان / بيروت)

"تهذيب التهذيب لابن حجر العسقلاني (ت ٨٥٢ هـ)" میں ہے:

"فالتشيع في عرف ‌المتقدمين هو اعتقاد تفضيل علي على عثمان، وأن عليا كان مصيبا في حروبه وأن مخالفه مخطئ مع تقديم الشيخين وتفضيلهما، وربما اعتقد بعضهم أن عليا أفضل الخلق بعد رسول الله -صلى الله عليهآله وسلم-، وإذا كان معتقد ذلك ورعا دينا صادقا مجتهدا فلا ترد روايته بهذا، لا سيما إن كان غير داعية، وأما ‌التشيع في عرف المتأخرين فهو الرفض المحض فلا تقبل رواية الرافضي الغالي ولا كرامة."

(تهذيب التهذيب لشهاب الدين أبو الفضل أحمد بن علي بن حجر العسقلاني (ت ٨٥٢ هـ)، ج:1، س:97، ط:دائرة المعارف النظامية، حيدرآباد الدكن - الهند)

"فتح المغيث بشرح الفية الحديث للسخاوي (ت ٩٠٢هـ)، " میں ہے:

"‌التشيع ‌في ‌عرف ‌المتقدمين ‌هو ‌اعتقاد ‌تفضيل علي على عثمان، وأن عليا كان مصيبا في حروبه، وأن مخالفه مخطئ، مع تقديم الشيخين وتفضيلهما، وربما اعتقد بعضهم أن عليا أفضل الخلق بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإذا كان معتقد ذلك ورعا دينا صادقا مجتهدا فلا ترد روايته بهذا، لا سيما إن كان غير داعية. وأما التشيع في عرف المتأخرين فهو الرفض المحض، فلا يقبل رواية الرافضي الغالي ولا كرامة."

(فتح المغيث بشرح الفية الحديث للعراقي لشمس الدين أبو الخير محمد بن عبد الرحمن بن محمد بن أبي بكر بن عثمان بن محمد السخاوي (ت ٩٠٢هـ)، ج:2، ص:67، ط: مكتبة السنة - مصر)

"سير أعلام النبلاء لشمس الدين  الذهبي (ت ٧٤٨ هـ)" میں ہے:

"فلقائل أن يقول: كيف ساغ توثيق مبتدع، وحد الثقة العدالة والإتقان؟ فكيف يكون عدلا من هو صاحب بدعة؟ وجوابه أن ‌البدعة ‌على ‌ضربين: ‌فبدعة ‌صغرى كغلو التشيع، أو كالتشيع بلا غلو ولا تحرف، فهذا كثير في التابعين وتابعيهم مع الدين والورع والصدق، فلو رد حديث هؤلاء لذهب جملة من الآثار النبوية، وهذه مفسدة بينة.

ثم بدعة كبرى كالرفض الكامل والغلو فيه، والحط على أبي بكر وعمر رضي الله عنهما، والدعاء إلى ذلك، فهذا النوع لا يحتج بهم ولا كرامة."

(سير أعلام النبلاء لشمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان الذهبي (ت ٧٤٨ هـ)، القدمة:ص:59، ط: مؤسسة الرسالة)

"ميزان الاعتدال في نقد الرجال لشمس الدين الذهبي" میں ہے:

"وأيضا فما أستحضر الآن في هذا الضرب رجلا صادقا ولا مأمونا، بل الكذب شعارهم، والتقية والنفاق دثارهم، فكيف يقبل نقل من هذا حاله! حاشا وكلا.

فالشيعي الغالي في زمان السلف وعرفهم هو من تكلم في عثمان والزبير وطلحة ومعاوية وطائفة ممن حارب عليا رضي الله عنه، وتعرض لسبهم.

والغالي في زماننا وعرفنا هو الذي يكفر هؤلاء السادة، ويتبرأ من الشيخين أيضا، فهذا ضال معثر  [ولم يكن أبان بن تغلب يعرض للشيخين أصلا، بل قد يعتقد عليا أفضل منهما."

(ميزان الاعتدال في نقد الرجال لشمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (ت ٧٤٨هـ)۔، ج:1، ص:6، ط:دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت - لبنان)

الغرض یہ احادیث مبارکہ روضۂ اطہر میں ممتاز حیثیت کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ اور سماع کے بیان پر مشتمل ہیں،علاوہ ازیں اکابر نے اس موضوع پر معتمد اور مفید کتابیں لکھیں ہیں،مزید تفصیل و تحقیق کے لیے ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے.

منجملہ :

(1)المہند علی المفندمولانا خلیل احمدسہارن پوری رحمہ اللہ۔ 

(2)تسکین الصدور،مولانا سرفراز  خان صفدر صاحبؒ۔

(3) مقامِ حیات،ڈاکٹر علامہ خالد محمود صاحب ؒ۔

(4)  فتاوی بینات،کتاب العقائد،مسئلہ حیات النبی،ج:1،ص:585 تا 735،طباعت:مکتبہ بینات۔

نیز    اس موضوع سے متعلق جامعہ بنوری ٹاؤن کا تفصیلی فتوی اس لنک پر بھی ملاحظہ فرمائیں:

حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حیات انبیاء علیہم السلام سے متعلق اہل سنت والجماعت کا عقیدہ

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200238

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں