بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حالتِ ارتداد میں روزے رکھنا


سوال

حالت ارتداد میں رکھے گئے فرض روزوں کا کفارہ ہے یا نہیں؟

جواب

روزہ رکھنے کی شرائط میں سے ہے کہ روزہ دار مسلمان ہو، جب کہ دینِ اسلام سے پھرنے والا مرتد کہلاتا ہے، مسلمان نہیں کہلاتا، لہٰذا مرتد شخص سے نہ ہی روزے رکھنے کا مطالبہ ہے اور نہ ہی روزے نہ رکھنے کی صورت میں کسی قسم کی قضاء یا کفارہ ہے۔تاہم مرتد کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ ارتداد کے فوراً بعد توبہ کرے اور اسلام میں داخل ہو جائے۔

مزید تفصیل کے لیے مندرجہ ذیل لنک ملاحظہ فرمائیں:

دائرۂ اسلام سے خارج ہونے کے بعد روزے رکھنا

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"(أما شروطه) فثلاثة أنواع. (شرط) وجوبه الإسلام والعقل والبلوغ."

(كتاب الصوم، الباب الأول في تعريفه وتقسيمه وسببه ووقته وشرطه، ج:1، ص:195، ط: رشيدية)

"المرتد عرفا هو الراجع عن دين الإسلام كذا في النهر الفائق وركن الردة إجراء كلمة الكفر على اللسان بعد وجود الإيمان."

(كتاب السير، الباب التاسع في أحكام المرتدين، ج:2، ص:253، ط: رشيدية)

إذا ارتد المسلم عن الإسلام والعياذ بالله عرض عليه الإسلام، فإن كانت له شبهة أبداها كشفت إلا أن العرض على ما قالوا غير واجب بل مستحب كذا في فتح القدير ويحبس ثلاثة أيام فإن أسلم وإلا قتل هذا إذا استمهل، فأما إذا لم يستمهل قتل من ساعته.

(كتاب السير، الباب التاسع في أحكام المرتدين، ج:2، ص:253، ط: رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411101243

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں