بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر نبی کے نام کے ساتھ علیہ السلام لکھنے کا حکم


سوال

غیر نبی پر علیہ السلام لکھنا کیسا ہے؟

جواب

"علیہ السلام" معنوی اعتبار سے دعائیہ کلمہ ہے، اس اعتبار سے مذکورہ دعائیہ کلمہ نبی غیر نبی سب کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، البتہ اصطلاحی اعتبار سے اس کلمہ کا اصالةً  استعمال انبیاء علیہم الصلاة و السلام کے ساتھ خاص ہے، اور اسی پر سلف صالحین کا تعامل رہا ہے،  خصوصًا جب کہ غیر نبی کے لیے مذکورہ کلمہ استعمال کرنا اہلِ بدعت و اہلِ ضلال کا شعار بن چکا ہے، لہذا  غیر نبی کے لیے براہِ راست اس کلمہ کو استعمال کرنے سے اجتناب کیا جائے، البتہ جہاں نبی کریم ﷺ کا ذکرِ مبارک ہو، اور اس کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا اہلِ بیت کرام رضی اللہ عنہم کا ذکر ہو، تو اصالۃً نبی کریم ﷺ کے لیے اور تبعًا صحابہ کرام اور اہلِ بیت رضی اللہ عنہم اجمعین کے لیے استعمال کرنا درست ہوگا۔

جامعہ کے سابقہ فتاویٰ میں ہے:

"واضح رہے کہ کسی بزرگ کے نام کے ساتھ "علیہ السلام" کا لفظ کہنا شرعاً ممنوع نہیں ہے؛ کیوں کہ "علیہ السلام" کا معنیٰ ہے: "اس پر سلامتی ہو"، اور ہم آپس میں بھی جو ایک دوسرے کو سلام کرتے ہیں "السلام علیکم" اس کے بھی یہی معنیٰ ہیں کہ "تم پر سلامتی ہو"، تو شرعاً اس کے کہنے میں کچھ ممانعت نہیں ہے، البتہ اہلِ سنت والجماعت کے ہاں "علیہ السلام"انبیاء کے ساتھ خاص ہے، اور "رضی اللہ عنہ" کے الفاظ صحابۂ کرام کے ساتھ خاص ہیں، اور یہ شعائرِ اہلِ سنت میں سے ہے، جو کوئی اس کے خلاف کرتاہے وہ شعائرِ اہلِ سنت کے خلاف کرتاہے۔ فقط واللہ اعلم"

کتبہ: محمد ولی درویش (17/1/1403)

الاذکار للنووی میں ہے:

(بابُ الصَّلاة على الأنبياءِ وآلهم تبعاً لهم صلى الله عليه وسلم)

أجمعوا على الصلاة على نبيّنا محمّدٌ صلى الله عليه وسلم، وكذلك أجمع من يُعتدّ به على جوازها واستحبابها على سائر الأنبياء والملائكة استقلالاً.

وأما غيرُ الأنبياء، فالجمهور على أنه لا يُصلّى عليهم ابتداء، فلا يقال: أبو بكر صلى الله عليه وسلم.

واختُلف في هذا المنع، فقال بعض أصحابنا: هو حرام، وقال أكثرهم: مكروه كراهة تنزيه، وذهب كثير منهم إلى أنه خلاف الأوْلَى وليس مكروهاً، والصحيحُ الذي عليه الأكثرون أنه مكروه كراهة تنزيه لأنه شعار أهل البدع، وقد نُهينا عن شعارهم.

والمكروه هو ما ورد فيه نهيٌ مقصود.

قال أصحابنا: والمعتمدُ في ذلك أن الصَّلاةَ صارتْ مخصوصةً في لسان السلف بالأنبياء صلواتُ الله وسلامُه عليهم، كما أن قولنا: عزَّ وجلَّ، مخصوصٌ بالله سبحانه وتعالى، فكما لا يُقال: محمد عزَّ وجلَّ - وإن كان عزيزاً جليلاً - لا يُقال: أبو بكر أو عليّ صلى الله عليه وسلم وإن كان معناه صحيحاً.

واتفقوا على جواز جعل غير الأنبياء تبعاً لهم في الصلاة، فيُقال: اللَّهمّ صل على محمد وعلى آل محمد، وأصحابه، وأزواجه وذرِّيته، وأتباعه، للأحاديث الصحيحة في ذلك، وقد أُمرنا به في التشهد، ولم يزل السلفُ عليه خارج الصلاة أيضاً.

وأما السلام، فقال الشيخ أبو محمد الجوينيُّ من أصحابنا: هو في معنى الصلاة، فلا يُستعمل في الغائب، فلا يفرد به غير الأنبياء، فلا يُقال: عليّ عليه السلام، وسواء في هذا الأحياء والأموات.

وأما الحاضر، فيُخاطب به فيقال: سلام عليكَ، أو: سلام عليكم، أو: السَّلام عليكَ، أو: عليكم، وهذا مجمع عليه (كتاب الصّلاة على رسول الله صلى الله عليه وسلم، ص: ١١٨، ط: دار الفكر)

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتویٰ دیکھیے:

علیہ السلام اور رضی اللہ عنہ کا استعمال

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نام سے علیہا السلام لکھنے کا حکم

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200069

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں