بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غیرمتعین پلاٹ کی فائل کی خرید و فروخت سے متعلق فتوی میں مزید سوالات کی وضاحت


سوال

آپ کے ایپ کے فتویٰ نمبر" 144306100933" میں پلاٹ کی خریدوفروخت سے متعلق ہے کہ مالکِ زمین سے ڈیلر زمین خرید سکتا ہے، لیکن پھر ڈیلر اس فائل کو جب تک پلاٹ کانمبر نہ لگا ہو آگے منافع کے ساتھ نہیں بیچ سکتا ،تو کیا بغیر منافع کے بیچ سکتا ہے؟اسی طرح یہ بات ذکر کی گئی تھی کہ اگرایسی فائل اگر منافع کے ساتھ بیچ دی جائے تو اس کا منافع واجب التصدق ہے، لیکن کیا خریدار کے لیے اس فائل کا خریدنا جائز ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ فتوی نمبر "144306100933" کے تحت موجود فتوی کی شق نمبر 1 میں یہ وضاحت کی گئی تھی کہ ایسے پلاٹ  کی خریدوفروخت جس کا  خارج میں تعین نہ کیا گیا ہواور فائل میں پلاٹ نمبر درج نہیں ہو   تو ایسے پلاٹ کی خریدوفروخت  جائز نہیں ہے،یہ حکم عام ہے،چاہے خریدوفروخت کے معاملہ میں نفع ہورہا ہویا نہیں،دونوں صورتوں میں ایسی فائل آگے کسی دوسرے شخص کو فروخت کرنا جائز نہیں ہے،کیوں کہ  یہ فائل ہولڈر اگر مذکورہ پلاٹ آگے فروخت کرتا ہے،اس کے لیے پلاٹ کی جگہ اور نمبر متعین نہ ہونے کی وجہ سے خریدار کوپلاٹ حوالہ کرنا ممکن نہیں ہوگا، البتہ پلاٹ کے خواہش مند جس شخص نے بلڈر/پلاٹ کے مالکان سے کسی غیر متعینہ پلاٹ کی بکنگ کرائی تھی اگر وہ اپنی  بکنگ کینسل کروانا چاہے،اور اس مقصد کے لیے اسی بلڈر سےاپنا بکنگ والا معاملہ ختم کرے صرف اپنی اصل جمع شدہ رقم وصول کرلے،زائد رقم وصول نہ کرے، یا اسی طرح کسی اور شخص کو اپنی یہ فائل دے کر اس کے نام رجسٹریشن منتقل کرواکر اس سے اپنی جمع شدہ رقم  وصول کرلے تو یہ جائز ہوگا۔

نیزغیرمتعین پلاٹ کی فائل کوخریدنا اور بیچنا دونوں جائز  نہیں ہے،معاملہ کے ناجائز ہونے کا حکم عاقدین (خریداراورفروخت کنندہ)دونوں سے متعلق ہے۔مذکورہ فتوی درج ذیل لنک پر ملاحظہ ہو۔

پلاٹ متعین کرنے سے پہلے اور متعین کرنے کے بعد فروخت کرنے کا حکم

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أما تعريفه فمبادلة المال بالمال بالتراضي كذا في الكافي وأما ركنه فنوعان أحدهما الإيجاب والقبول والثاني التعاطي وهو الأخذ والإعطاء كذا في محيط السرخسي 

ومنها في البدلين وهو قيام المالية حتى لا ينعقد متى عدمت المالية هكذا في محيط السرخسي ومنها في المبيع وهو أن يكون موجودا فلا ينعقد بيع المعدوم."

(كتاب البيوع ، الباب الأول في تعريف البيع وركنه وشرطه وحكمه وأنواعه، ج:3، ص:2، ط:دارالفكر)

وفيه ايضا:

"المرابحة بيع بمثل الثمن الأول وزيادة ربح والتولية بيع بمثل الثمن الأول من غير زيادة شيء والوضيعة بيع بمثل الثمن الأول مع نقصان معلوم."

(كتاب البيوع، الباب الرابع عشر في المرابحة والتولية والوضيعة، ج:3، ص:160، ط:دارالفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وهما عبارة عن كل لفظين ينبئان عن معنى التملك والتمليك ماضيين) كبعت واشتريت أو حالين) كمضارعين لم يقرنا بسوف والسين كأبيعك فيقول أشتريه أو أحدهما ماض والآخر حال.

(و) لكن (لا يحتاج الأول إلى نية بخلاف الثاني) فإن نوى به الإيجاب للحال صح على الأصح وإلا لا إذا استعملوه للحال كأهل خوارزم فكالماضي وكأبيعك الآن لتمحضه للحال، وأما المتمحض للاستقبال فكالأمر لا يصح أصلا إلا الأمر إذا دل على الحال كخذه بكذا فقال أخذت أو رضيت صح بطريق الاقتضاء فليحفظ.

وفي الرد:(قوله: بخلاف الثاني) فإنه يحتاج إليها وإن كان حقيقة للحال عندنا على الأصح لغلبة استعماله في الاستقبال حقيقة أو مجازا بحر عن البدائع. (قوله: وإلا لا) صادق بما إذا نوى الاستقبال أو لم ينو شيئا ط.

(قوله: وأما المتمحض للاستقبال) كالمقرون بالسين وسوف ط. (قوله: كالأمر) بأن قال: المشتري: بعني هذا الثوب بكذا فيقول: بعت أو يقول: البائع: اشتره مني بكذا فيقول: اشتريته. (قوله: لا يصح أصلا) أي سواء نوى بذلك الحال أو لا لكون الأمر متمحضا للاستقبال وكذا المضارع المقرون بالسين أو سوف."

(كتاب البيع،ج:4، ص:510، ط:سعيد)

فقہ البیوع میں ہے:

"الوعد والمواعدة بالبيع ليس بيعا،ولاتترتب عليه آثار البيع من نقل ملكية المبيع ولاوجوب الثمن."

(فقه البيوع، ج:2، ص:1103، ط:مكتبة معارف القرآن)

احسن الفتاوی میں ہے:

لفظ" دیدیگا" وعدہ بیع ہے

"سوال: زید نے سیب پکنے سے تقریباً دو تین ماہ قبل عمر کو کچھ روپے دیے کہ عمر اس کو اپنے سیب فی من مثلاً دو سو روپے دے گا ،مگر عقد کے وقت نہ تاجیل ثمن کی شرط تھی اور نہ ہی تاجیل مبیع کی، عقد کے بعد یہ کہا کہ عمر زید کو سیب فی من دوسو روپے اس وقت دے دے گا جب کہ سیب پک جائے، اس لیے کہ عقد کرتے وقت تو سیب بالکل کچے تے، سیب پکنے کے بعد عمر نے حسب وعدہ فی من دوسو روپے دیدئیے اور مشتری نے بھی بقیہ ثمن دےدیا...الخ

جواب:لفظ "دیدیگا" بیع نہیں وعدہ بیع ہے، لہذا مالک نے سیب پکنے کے بعد دیدئیے تو یہ بیع بالتعاطی ہوگئی۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔"

(کتاب البیوع، ج:6، ص:507، ط:سعید)

تجارت کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا میں ہے:

"ایک شخص دوسرے سے اس طرح معاہدہ کرتا ہے کہ فلاں چیز، فلاں قیمت پر آپ کو دوں گا اور دوسرا قبول کرلیتا ہے ، جب کہ ابھی تک چیز اس کے قبضہ میں نہیں ہے، تو یہ بیع نہیں بلکہ "وعدہ بیع" ہے۔"

(بحث وعدہ بیع،جلد :6، صفحہ:427، طباعت:بیت العمار)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407100727

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں