بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پلاٹ متعین کرنے سے پہلے اور متعین کرنے کے بعد فروخت کرنے کا حکم


سوال

آج کل مختلف سوسائٹیاں زمین خرید کر پلاٹنگ شروع کرتی ہے اور زمین میں جتنے پلاٹ بننے ہوتے ہیں ان کی اوپن فائلز بنا کر فروخت کرنا شروع کر دیتی ہے( اوپن فائل کسی کے نام نہیں ہوتی۔ اس میں اتنا متعین ہوتا هے کہ اس پلاٹ کا سائز کتنا ہے اور کس بلاک میں ہے، اور اس فائل کی مالیت اس کے پلاٹ کی کل قیمت کے حساب سے مختلف ہوتی ہے).

اب سوسائٹی والے بڑے ڈیلرز کو زیادہ فائلز لینے پرڈسکاونٹ دیتی ہے ( مثلا جس فائل کی قیمت سوا لاکھ ہے وہ ان کو 30 ہزار میں مل جاتی ہے اور وہ فائل تب بھی اوپن ہی رہتی ہے کسی کے نام نہیں ہوتی پھر یہ بڑے ڈیلر کچھ منافع رکھ کر اس کو آگے دوسرے چھوٹے ڈیلرز کو بیچتے ہیں۔ پھر چھوٹے ڈیلر سے مختلف لوگ لے لیتے ہیں پھر ہر بندے کی مرضی ہوتی کہ وہ اس فائل کو اپنے نام کروا کے کلوز کرے اور قسطیں دینا شروع کرے یا یوں ہی اوپن رہنے دے۔۔۔لیکن اس فائل کو جو بھی اپنے نام کروائے گا تو اس  فائل کی اصل قیمت جو سوسائٹی نے طے کی تھی وہ وصول سمجھی جائے گی،مثلا ڈیلر کو سوسائٹی نے سوا لاکھ والی فائل ڈسکاؤنٹ پر  30 ہزار کی دی تھی اور اس نے اگے 50 ہزار کی فروخت کی تھی اب وہ شخص اگر نام کرواتا ہے تو سوسائٹی میں اس کے سوا لاکھ موصول شمار ہوں گے، جو کہ فائل کی اصل قیمت تھی )

اب سوال یہ ہے کہ: 

1- سوسائٹی کا اس طرح پلاٹ کی فائل بنا کر فروخت کرنا جائز ہے، جبکہ پلاٹ کی متعین جگہ معلوم نہیں؟

2- سوسائٹی سے ڈسکاؤنٹ پر لینے والے ڈیلرز کے لئے ان فائل کو منافع پر (جو کہ فائل کی اصل قیمت سے پھر بھی کم ہوتا) بیچنا جائز ہے؟

3- ان فائل سے کمائی ہوئی رقم کا حکم؟

4- کوئی شخص اس فائل کے فروخت کرنے والے ڈیلر اور خریدار کے درمیان ڈیل کروانے کا کمیشن لے، اس کمیشن کا حکم؟

5۔ کوئی شخص سوسائٹی سے براہ راست کچھ پلاٹ قیمت متعین کر کے خرید لے جبکہ ان پلاٹس میں کچھ کی جگہ متعین ہو چکی، کچھ کی متعین ہونا باقی ہو۔ اب یہ خریدار ان پلاٹس کو آگے قسطوں پر فروخت کر سکتاہے؟

جواب

جواب سے پہلے تمہید  کے طور پر ایک اُصولی بات سمجھنا ضروری ہے:

اگر کوئی بلڈر زمین کا کوئی رقبہ خرید کر اس میں پلاٹنگ کرتا ہے، پھر خریدار کو ثبوت کے طور پر بیع نامہ اور دیگر دستاویزات دیتا ہے، جس کو عرفِ عام میں "فائل" کہا جاتا ہے تو اِس فائل کی خرید و فروخت  کا حکم یہ ہے کہ اگر نقشہ بنا لیا گیا ہو اور نقشہ کے مطابق فائل میں  پلاٹوں کی تعیین ہو چکی ہو تو اِس صورت میں اس پلاٹ اور فائل کی خرید و فروخت جائز ہو گی ،اور اگر پلاٹوں کی تعیین نہیں ہوئی تو خرید و فروخت اُس وقت جائز ہو گی جب سودا کرتے وقت یہ کہا جائے کہ  اس رقبہ اراضی میں سے اتنا  حصہ فروخت کر دیا  یا ان پلاٹوں میں سے ایک پلاٹ فروخت کر دیا۔  لیکن خریدار یہ پلاٹ اُس وقت  تک آگے  فروخت نہیں کر سکتا جب تک پلاٹوں کی  تعیین نہ ہو جائے؛ کیوں کہ اس قطعہ اراضی میں سے اُس کے لیے پلاٹ حوالہ کرنا ممکن نہیں ہو گا اور تعیین کا طریقہ یہ ہے کہ بلاک اور پلاٹ نمبر فائل میں لکھ دیا جائے۔

اب سائل کے سوالات کے جوابات بالترتیب یہ ہیں:

1. اگر نقشہ کے مطابق فائل میں پلاٹ کا نمبر لکھ کر متعین کر دیا گیا ہے تو فائل کی خرید و فروخت جائز ہو گی، اگرچہ خارج میں اس پلاٹ کی جگہ متعین نہ کی گئی ہو، لیکن اگر نقشہ میں بھی جگہ متعین نہ ہوتوپھر اُس وقت جائز ہو گی جب سودا کرتے وقت یہ کہا جائے کہ  اس رقبہ اراضی میں سے اتنا  حصہ فروخت کر دیا  یا ان پلاٹوں میں سے ایک پلاٹ فروخت کر دیا۔

2. اگر فائل میں پلاٹ متعین کر دیا گیا ہے تو سوسائٹی سے ڈسکاؤنٹ پر لینے والے ڈیلرز بھی اس پلاٹ کو آگے منافع کے ساتھ فروخت کر سکتے ہیں، لیکن اگر فائل میں پلاٹوں کی تعیین نہ ہوئی ہو تو ڈیلر  کے لیے مالک سے تو خریدنا جائز ہے، لیکن ڈیلر کے لیے  پلاٹ کو نفع کے ساتھ آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہو گا۔

3. پلاٹوں کی نقشہ میں تعیین کے بعد فروخت کرنے کی صورت میں کمائی حلال ہے، اور اگر تعیین کے بغیر فائل فروخت کی تو یہ بیع فاسد کہلائے گی اور اس سے کمائی ہوئی رقم واجب التصدق (یعنی اس رقم کو صدقہ کرنا واجب) ہو گی۔

4. جس صورت میں پلاٹ کی خرید و فروخت جائز ہے اس صورت میں اُس کی ڈیل کروا کر اس کا کمیشن وصول کرنا بھی جائز ہے اور جس صورت میں فائل میں پلاٹ  کا نمبر متعین  نہ ہونے کی وجہ سے خرید و فروخت ناجائز ہے اس صورت میں بروکر یا ایجنٹ کے لیے کمیشن وصول کرنا بھی ناجائز ہے۔ 

5. اگر نقشہ اور فائل میں تمام پلاٹس متعین ہوں تو تمام پلاٹس کو نفع کے ساتھ بیچنا صحیح ہو گا، گو کہ خارج میں کچھ غیر متعین ہوں، لیکن اگر نقشہ اور فائل  میں ہی بعض پلاٹس متعین نہ ہوں تو ان غیر متعین  پلاٹس کو نفع کے ساتھ فروخت کرنا جائز نہیں ہو گا۔پھر جن صورتوں میں پلاٹ کی خرید و فروخت جائز ہے تو قسطوں پر فروخت کرنا بھی جائز ہے، اور جن صورتوں میں نفع کے ساتھ نقد  خرید و فروخت کرنا ناجائز ہے ان صورتوں میں  قسطوں پر فروخت کرنا بھی ناجائز ہے۔

مجلة الأحكام العدلية  میں ہے:

"(المادة 198) : يلزم أن يكون المبيع مقدور التسليم۔

(المادة 200) : يلزم ‌أن ‌يكون ‌المبيع ‌معلوما عند المشتري۔

(المادة 203) : يكفي كون المبيع معلوما عند المشتري فلا حاجة إلى وصفه وتعريفه بوجه آخر."

(الکتاب الاول فی البیوع، الباب الثاني: في بيان المسائل المتعلقة بالمبيع،  ‌‌الفصل الأول: في حق شروط المبيع وأوصافه، ص:41، ط: نور محمد)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ومنها ‌أن ‌يكون ‌المبيع ‌معلوما والثمن معلوما علما يمنع من المنازعة فبيع المجهول جهالة تفضي إليها غير صحيح كبيع شاة من هذا القطيع وبيع شيء بقيمته وبحكم فلان."

(کتاب البیوع، ‌‌الباب الأول في تعريف البيع وركنه وشرطه وحكمه وأنواعه، ج:3، ص:3، ط: رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100933

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں