بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی دوسرے ملک میں رہائش اختیار کرنے کا حکم


سوال

جو شخص  یہاں اپنے ملک میں گزارے کے لائق روزی پاتا ہو، لیکن محض دنیاوی منفعت کے لیے کسی دوسرے ملک میں ہجرت اور سکونت اختیار کرنا چاہتا ہو، ایسے شخص کا عمل کیسا ہے؟

جواب

اگر کوئی شخص کسی دوسرے ملک میں رہائش اختیار کرنا چاہتا ہے اور وہ ملک غیر اسلامی نہیں، بلکہ وہ بھی مسلمانوں ہی کا ملک ہے اور وہاں دین و ایمان کی حفاظت کے ساتھ وہاں رہائش اختیار کی جاسکتی ہو، تو ایسے ملک میں رہائش اختیار کرنا جائز ہے، لیکن وہ ملک غیر اسلامی ہے اور کفار کا ہے، تو  نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار اور غیر مسلموں کے ساتھ رہائش اختیار کرنے کی ممانعت فرمائی ہے اور ایسے لوگوں کو انہیں کے مثل قرار دیا ہے، لہٰذا جو شخص اپنے ملک میں اس طرح گزارے کی روزی روٹی پاتا ہو، اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ محض دنیاوی منفعت کے لیے اپنا ملک چھوڑ کر غیر مسلم ملک میں رہائش اختیار کرے کہ جہاں اس کے دین و ایمان کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو۔

سنن أبي داودمیں ہے :

"حدثنا محمد بن داود بن سفيان، حدثنا يحيى بن حسان، أخبرنا سليمان بن موسى أبو داود، حدثنا جعفر بن سعد بن سمرة بن جندب، حدثني خبيب بن سليمان، عن أبيه سليمان بن سمرة، عن سمرة بن جندب، أما بعد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من جامع المشرك وسكن معه فإنه مثله»".

(الكتاب: سنن أبي داود، المؤلف: أبو داود سليمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشير بن شداد بن عمرو الأزدي السّجِسْتاني (المتوفى: 275هـ)، المحقق: محمد محيي الدين عبد الحميد، الناشر: المكتبة العصرية، (3/ 93)،كتاب الجهاد،  باب في الإقامة بأرض الشرك)

لمعات التنقيح ميں میں ہے:

"ثم المراد أنه لا يرحل من حيث قصد ذوات الأمكنة، وأما إن كان إليها حاجة من تعلم العلم أو التجارة أو نحو ذلك، فذلك شيء آخر، وظاهره النهي عن المسافرة إلى موضع سوى هذه المواضع."

(كتاب الصلاة، ج:2، ص:450، ط:دار النوادر)

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر موجود فتوی ملاحظہ کریں۔

مسلمانوں کا غیر مسلم ممالک میں رہائش اختیار کرنے کاحکم 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101606

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں