بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

Islamic Noor Card (اسلامک نور کارڈ) کے نام سے موجود کریڈٹ کارڈ استعمال کرنے کا حکم


سوال

فیصل بینک کا(Islamic Noor Card)  اسلامک نور  کارڈ   جو  کہ ایک کریڈٹ کارڈ ہے، استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

 واضح رہے کہ جس طرح سود لینا حرام ہے، اسی طرح اس کا معاہدہ کرنا بھی شرعاً حرام ہےچوں کہ کریڈٹ کارڈ چاہے وہ کسی بینک کا کسی بھی نام و عنوان سے ہو،صارف کریڈٹ کارڈ لیتے وقت بینک سے یہ معاہدہ کرتا ہے کہ وہ اگر  لی جانے والی رقم مقررہ مدت میں واپس نہ کر سکا تو ایک متعین شرح کے ساتھ جرمانہ کے نام پر سود ادا کرے گا،تویہ معاہدہ شرعاً جا ئز نہیں ؛اس لیے  کہ اگر بالفرض  کریڈٹ کارڈ لینے والا شخص لی گئی رقم مقررہ مدت میں واپس بھی کردے تو معاہدہ سودی ہونے کی وجہ سے اصولی طور پر کریڈٹ کارڈ کا بنوانا اور استعمال کرنا  ناجائز ہے  اور اگر مقررہ مدت کے بعد سود کے ساتھ رقم واپس کرتا ہے تو اس میں گناہ میں مزید اضافہ ہوگا،   اس لیے ادائیگی کی صورت کوئی بھی ہو اس سے قطع نظر نفسِ معاہدہ کے سودی ہونے کی وجہ سے کریڈٹ کارڈ بنوانا اور اس کو کسی بھی کام میں استعمال کرنا  ناجائز ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں فیصل بینک کا مذکورہ "اسلامک نور کارڈ"  چوں کہ ایک  کریڈٹ کارڈر ہے،اس لیے اس کا بنوانا اور  استعمال کرنا سودی معاہدے اور سودی لین دین کی وجہ سے شرعاً جائز نہیں ہے، لہذا اس سے اجتناب کیا جائے۔

کریڈٹ کارڈ کے لیے مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کیجیے:

ڈیبٹ کارڈ اور کریڈٹ کا حکم

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الذی یرجع إلی نفس القرض فهو أن لا یکون فیه جر منفعة، فإن کان لم یجز ، نحو ما إذا أقرضه دراهم غلّة علی أن یرد علیه صحاحا، أو أقرضه وشرط شرطاً له فیه منفعة لما روی عن رسول اللّٰہ صلى الله عليه وسلم أنه نهی عن قرض جرّ نفعاً."

(کتاب القرض، فصل فی شرائط رکن القرض،395/7،ط:دار الکتب العلمیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه: كلّ قرض جرّ نفعًا حرام، فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن...(قوله: كلّ قرض جر نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطًا كما علم مما نقله عن البحر...ثم رأيت في جواهر الفتاوى إذا كان مشروطًا صار قرضًا فيه منفعة وهو ربا وإلا فلا بأس به اهـ ما في المنح ملخصًا وتعقبه الحموي بأن ما كان ربًا لايظهر فيه فرق بين الديانة والقضاء على أنه لا حاجة إلى التوفيق بعد الفتوى على ما تقدم أي من أنه يباح."

(مطلب كلّ قرض جر نفعًا حرام، ج:5،ص:166،ط:سعید)

الأشباہ والنظائر میں ہے:

"ماحرم فعله حرم طلبه".

(القاعدة الرابعة عشر،ج:1،ص:348،ط:مکتبه علمیه)

عمدة القاری میں ہے:

"الرضی بالحرام حرام."

(باب آكل الرباوشاهده،كاتبه،ج:17،ص:320،ط:دار الكتب العلمية)

الجامع لأحكام القرآن للقرطی میں ہے:

"قوله تعالى: (وقتلهم الأنبياء بغير حق) أي ونكتب قتلهم الأنبياء، أي رضاهم بالقتل. والمراد قتل أسلافهم الأنبياء، لكن لما رضوا بذلك صحت الإضافة إليهم. وحسن رجل عند الشعبي، قتل عثمان رضي الله عنه فقال له الشعبي: شركت في دمه. فجعل الرضا بالقتل قتلا، رضي الله عنه قلت: وهذه مسألة عظمى، حيث يكون الرضا بالمعصية معصية. وقد روى أبو داود عن، العرس بن عميرة الكندي عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (إذا عملت الخطيئة في الأرض كان من شهدها فكرهها- وقال مرة فأنكرها- كمن غاب عنها ومن غاب عنها فرضيها كان كمن شهدها). وهذا نص."

(تفسيرسورة آل عمران،ج:4،ص:295،ط:دار الكتب المصرية،القاهرة)

وفيه أيضا:

"قال الله عز وجل: (إنكم إذا مثلهم). فكل من جلس في مجلس «1» معصية ولم ينكر عليهم يكون معهم في الوزر سواء، وينبغي أن ينكر عليهم إذا تكلموا بالمعصية وعملوا بها، فإن لم يقدر على النكير عليهم فينبغي أن يقوم عنهم حتى لا يكون من أهل هذه الآية. وقد روي عن عمر بن عبد العزيز [رضي الله عنه «2»] أنه أخذ قوما يشربون الخمر، فقيل له عن أحد الحاضرين: إنه صائم، فحمل عليه الأدب وقرأ هذه الآية (إنكم إذا مثلهم) أي إن ‌الرضا ‌بالمعصية معصية، ولهذا يؤاخذ الفاعل والراضي بعقوبة المعاصي حتى يهلكوا بأجمعهم."

(تفسير سورة النساء،ج:5،ص:418،ط:دار الكتب المصرية،القاهرة)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144408101790

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں