ڈیبٹ کارڈ اور کریڈٹ کارڈ کا حکم!
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ: ڈیبٹ کارڈ اور کریڈٹ کارڈ پر ایک خاص قسم کا ڈسکاؤنٹ(Discount) ملتا ہے، مثلاً اگر K.F.Cسے کھانا لیا اور ادائیگی حبیب بینک کے کارڈ سے کی تو% 10رعایت ملتی ہے، اس کا کیا حکم ہے؟ براہ کرم دونوں کا حکم جداجدا بتلادیں۔ نیز واضح رہے کہ ڈیبٹ کارڈ میں تو کٹوتی بینک میں موجود اکاؤنٹ سے ہوتی ہے تو یہ تو اے، ٹی، ایم کارڈ ہے جو اصل میں بینک سے رقم نکلوانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ آپ کسی بھی وقت اے ٹی ایم مشین سے پیسے اس کارڈ کی مدد سے نکال سکتے ہیں اور پیسے بھی اتنے ہی نکلیںگے جتنے جمع کروائے گئے ہیں، یعنی اس میں قرض والا معاملہ نہیں ہے۔ اس طرح کسی دکان سے خریداری کریںگے اور پھر رقم کی ادائیگی اس ڈیبٹ کارڈ سے کی جائے گی، وہ رقم فوراً اس اکاؤنٹ سے کاٹ لی جائے گی۔ اب اگر کسی کے اکاؤنٹ میں دس ہزار روپے ہیں اور اس نے پانچ ہزار کی شاپنگ کی اور ڈیبٹ کارڈ استعمال کرلیا، اب پانچ ہزار پانچ سو کے لیے وہ کارڈ استعمال کیا جائے تو ڈیبٹ کارڈ استعمال نہیں کیا جا سکے گا۔ کریڈٹ کارڈ کا استعمال اس سے یکسر مختلف ہے، وہاں قرض لیا جاتا ہے، بینک آپ کی طرف سے رقم کی ادائیگی کرتا ہے اور اس پر سود وصول کیا جاتا ہے۔اس حوالے سے مزید ایک بات اور ذکر کردوں کہ بینک کی طرف سے یہ رعایت غیر مشروط ہوتی ہے، جس کے دینے کا بینک پابند نہیں اور نہ ہی صارف اس کا تقاضا کرسکتا ہے، بلکہ بینک اپنی پروموشن کے واسطے یہ رعایت دیتا ہے اور بینک بناکسی پیشگی نوٹس کے یہ رعایت ختم کرسکتا ہے تو آیا قرض پر ملنے والے یہ منافع اور رعایت جبکہ غیر مشروط ہوں تو حکم میں فرق نہ ہوگا؟ کیونکہ یہاں قرض پر ملنے والا منافع مشروط نہیں ہے۔مستفتی: محمد عاطف راج الجواب باسم ملہم الصواب واضح رہے کہ کریڈٹ کارڈ(Credit Card)کا استعمال اور اس کے ذریعہ سے خرید وفروخت ناجائز ہے، اس لیے کہ کریڈٹ کارڈ کے حصول کے لیے بینک سے یہ معاہدہ کرتے ہوئے اصل معاملہ کے ساتھ ہی یہ طے کرنا پڑتا ہے کہ اگر مقررہ مدت کے اندر کارڈ ہولڈر نے رقم کی ادائیگی نہ کی تو وہ مقررہ اضافی رقم (سود) ادا کرے گا، تو جس طرح سود کا لین دین شرعاً حرام ہے، اسی طرح سودی لین دین کا معاہدہ کرنا بھی حرام ہے، لہٰذا کریڈٹ کارڈ کا حاصل کرنا اصولی طور پر جائز نہیں ہے، چاہے بعد میں سود دینے کی نوبت آئے یا نہ آئے،کیونکہ کسی معاملہ کے جائز یا ناجائز ہونے کا مدار صرف نتیجے پر ہی نہیں ہوتا، بلکہ معاملہ طے پانے کی کیفیت پر بھی مدار ہوتا ہے، مزید برآں عام طور پر دیکھا یہ گیا ہے کہ کارڈ لینے کے بعد چارو ناچار اُنہیں سود کی ادائیگی کی نوبت آجاتی ہے۔ باقی کریڈٹ کارڈ سے جو جائز سہولتیں متعلق ہیں وہ ڈیبٹ کارڈ سے بھی حاصل ہوجاتی ہیں، اس لیے کریڈٹ کارڈ کے استعمال کو ضرورت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ البتہ ڈیبٹ کارڈ (Debit Card)بنوانا اور اس کا استعمال کرنا فی نفسہٖ جائز ہے، کیونکہ اس کے حاصل کرنے کے لیے سودی معاہدہ نہیں کرنا پڑتا، بلکہ اس کارڈ کے ذریعہ آدمی اتنے ہی پیسوں کی خریداری کرسکتا ہے جتنی رقم اس کے اکاؤنٹ میں موجود ہے، یعنی اس میں قرض والا معاملہ شروع سے ہوتا ہی نہیں ہے، اس لیے سود لینے دینے کی نوبت ہی نہیں آتی، لہٰذا اس کا استعمال تو جائز ہے، لیکن اس (ڈیبٹ کارڈ)کے ذریعہ ادائیگی کی صورت میں اگر کچھ پیسوں کی رعایت (Discount) ملے تو معلوم کرنا چاہیے کہ وہ رعایت (Discount) بینک کی طرف سے ملتی ہے یا جہاں سے خریداری کی ہے ان کی طرف (مثلاً K.F.Cکی طرف )سے؟ اگر یہ رعایت بینک کی طرف سے ملتی ہو (یعنی بل میں جتنے پیسوں کی رعایت کارڈ ہولڈر کے ساتھ کی گئی ہو وہ اس کی طرف سے بینک ادا کرتاہو) تو اس صورت میں وہ رعایت (Discount) حاصل کرنا شرعاً ناجائز ہوگا، کیونکہ یہ رعایت بینک کی طرف سے کارڈ ہولڈر کو اپنے بینک اکاؤنٹ کی وجہ سے مل رہی ہے جو شرعاً قرض کے حکم میںہے اور جو فائدہ قرض کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے وہ سود کے زمرے میں آتا ہے، چاہے مشروط ہو یا نہ ہو، نیز دوسری وجہ عدمِ جواز کی یہ بھی ہے کہ بینک کی اکثر کمائی سود کے پیسوں کی ہوتی ہے، اس لیے بینک سے کسی قسم کا مالی فائدہ اُٹھانا سودی پیسوں سے فائدہ اُٹھانے کے مترادف ہونے کی وجہ سے بھی ناجائز ہے، لیکن اگر یہ رعایت مثلاً: K.F.C کی طرف سے کارڈ ہولڈر کو ملتی ہو تو یہ ان کی طرف سے تبرع واحسان ہونے کی وجہ سے جائز ہوگا۔ البتہ اگر یہ بات پتہ نہ چل سکتی ہو کہ یہ رعایت کارڈ ہولڈر کو بینک یا متعلقہ ادارے کی طرف سے ملتی ہے تو چونکہ زیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ یہ رعایت مکمل طور پر یا جزوی طور پر بینک کی طرف سے ہی ملتی ہے، اس لیے اس رعایت کو حاصل کرنا اور اس سے فائدہ اٹھانا ناجائز ہی ہوگا۔ حدیث شریف میں ہے: ’’عن جابر ؓ قال: لعن رسول اللّٰہ a آکلَ الربوا ومؤکلہٗ وکاتبہٗ وشاہدیہ وقال: ہم سوائ۔‘‘ (الصحیح لمسلم، کتاب المساقات، باب آکل الربوا ومؤکلہ،ج:۳،ص:۱۲۱۹، دار احیاء التراث العربی،بیروت) ترجمہ:…’’حضرت جابرqسے روایت ہے کہ رسول اللہ a نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سودی معاملہ کو لکھنے والے اور اس پر گواہ بننے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ: یہ سب (گناہ میں) برابر ہیں۔‘‘ حدیث میں ہے: ’’عن علیq مرفوعاً: کل قرضٍ جَرَّ منفعۃً فہو رباً۔‘‘ (اعلاء السنن، باب کل قرض جر منفعۃ، ج:۱۴، ص:۴۹۸) الدر المختار کتاب البیوع، باب المرابحۃ والتولیۃ میں ہے: ’’وفی الأشباہ: کل قرض جر نفعاً حرام۔‘‘ (فتاوی شامی، فصل فی القرض،ج:۵، ص:۱۶۶، سعید) بدائع الصنائع میں ہے: ’’وأما الذی یرجع إلی نفس القرض فہو أن لا یکون فیہ جر منفعۃ، فإن کان لم یجز ، نحو ما إذا أقرضہ دراہم غلّۃ علی أن یرد علیہ صِحاحا أو أقرضہ وشرط شرطاً لہ فیہ منفعۃ لما روی عن رسول اللّٰہ a أنہ نہٰی عن قرض جرّ نفعاً‘‘۔ (کتاب القرض، فصل فی شرائط رکن القرض:ج:۷،ص:۳۹۵،دار الکتب العلمیۃ، بیروت) فقط واللہ اعلم الجواب صحیح الجواب صحیح کتبہٗ ابوبکر سعید الرحمن محمد شفیق عارف محمد قاسم تخصصِ فقہِ اسلامی جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی