بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک مرتبہ السلام علیکم کہنا اور سلام پھیر لینے کاحکم


سوال

 میں ملک عمان میں فی الحال مقیم ہوں ،یہاں کچھ لوگ ایک مرتبہ السلام علیکم ورحمتہ اللہ بول کر دونوں طرف سلام پھیر دیتے ہیں کیا یہ درست ہے ؟ براہ ِ مہربانی  قرآن وحدیث کی روشنی میں مدلل جواب مرحمت فرمائیں!

جواب

واضح رہے کہ لفظ سلام سے نماز کو ختم کرناضروری ہے،  امام مالک اور امام شافعی رحمہااللہ کے نزدیک فرض ہے اور احناف کےنزدیک واجب ہے، البتہ  دو مرتبہ سلام کہنا احناف کے نزدیک ضروری ہے،  لیکن بعض فقہاء کرام جیسے امام مالک رحمہ اللہ  کے نزدیک ایک مرتبہ سلام کہنا  کافی ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مالکی حضرات  کے لیے ایک مرتبہ  ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘‘  کہہ کر دونوں طرف منہ پھیر نا درست ہے،  اس سے نماز ہوجاتی ہے،  البتہ احناف کے نزدیک دونوں جانب سلام پھیرتے وقت  السلام علیکم  کہنا ضروری ہے۔

واضح رہےکہ عمان میں اباضی فرقے کی  اکثریت ہے، اور  وہ ائمہ اربعہ میں سے کسی کے مقلد نہیں ہیں،  بلکہ وہ اہل سنت والجماعت میں داخل وشامل نہیں ہیں۔ ان  کے حکم سے متعلق تفصیل درج ذیل لنک میں ملاحظہ کیجیے:

اباضی فرقہ کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم

اباضی فرقہ کے عقائد اور ان سے نکاح کا حکم

السنن الکبری للبیہقی میں ہے:

"علقمة بن قيس، والأسود بن يزيد، وأبو الأحوص قالوا: ثنا عبد الله بن مسعود، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان " يسلم، عن يمينه السلام عليكم ورحمة الله، حتى يرى بياض خده الأيمن، وعن يساره السلام عليكم ورحمة الله، حتى يرى بياض خده الأيسر."

(ابواب صفة الصلاة،ج:2،ص:251،ط:دارالكتب العلميه)

سنن الدارقطنی میں ہے:

"عن عبد الله بن مسعود ، قال: " ما نسيت من الأشياء فلم أنس تسليم رسول الله صلى الله عليه وسلم في الصلاة عن يمينه وشماله: السلام عليكم ورحمة الله السلام عليكم ورحمة الله " ، ثم قال: «كأني أنظر إلى بياض خديه»."

(كتاب الصلاة،باب ذكرمايخرج من الصلاة به وكيفية التسليم،ج:2،ص:174،الرقم:1350،ط:مؤسسة الرسالة)

بدائع الصنائع میں ہے:

"فإصابة لفظة السلام ليست بفرض عندنا ولكنها واجبة وعند مالك والشافعي فرض حتى لو تركها عامدا كان مسيئا...(وأما) الكلام في قدره فهو أنه يسلم تسليمتين، إحداهما عن يمينه والأخرى عن يساره عند عامة العلماء، وقال بعضهم: يسلم تسليمة واحدة تلقاء وجهه، وهو قول مالك، وقيل: هو قول الشافعي، وقال بعضهم: يسلم تسليمة واحدة عن يمينه."

(كتاب الصلاة،فصل لفظ الخروج من الصلاة،ج:1،ص:194،ط:دارالكتب العلميه)

العزیز شرح الوجیز میں ہے:

 "المنقول عن مالك أن الاختيار للإمام والمنفرد الاقتصار على ‌تسيلمة ‌واحدة، وأما المأموم فيسلم تسليمتين، ويروي عنه استحباب الاقتصار على التسليمة الواحدة مطلقا."

(كتاب الصلاة،الباب الرابع في كيفية الصلاة،ج:1،ص:542،ط:دارالكتب العلميه)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144404101746

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں