بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 جُمادى الأولى 1446ھ 12 نومبر 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈراپ شپنگ میں تیسری پارٹی سے سامان لے کر کسٹمر کو پہنچانا


سوال

ہم  amazon market میں dropshipping کا کام کرتے ہیں، چناں چہ ہم کرتے یہ ہیں کہ amazon کی لسٹ پر brand سے اجازت لے کر me too کرتے ہیں، اب جیسے آرڈر آتا ہے تو قبول کرلیتے ہیں، اور پیسے بھی آجاتے ہیں، اور پھر  ہم supplier کو آرڈر دیتے ہیں، مثلا: ہمارے پاس آرڈر آتا ہے، آرڈر دینے والے شخص کا نام اویس ہے، جب اویس ہمیں آرڈر دے گا تو ہم supplierکو وہ آرڈر دیں گے، اور address بھی ان کو دیں گے، یعنی کہ آرڈر کے معاملات ہمارے ہاتھ میں نہیں، اب اگر اویس نے وہ آرڈ ہم سے 2000 میں خریدا تو supplier نے ہم کو  1700 میں دیا ، تو اس میں ہماری کوئی investment نہیں تھی پھربھی 300 منافع ہوگیا، تو کیا ایسا کاروبار کرنا جائز ہے؟

اس میں نقصان بھی ہوسکتا ہے کہ amazon کی policy یہ ہے کہ ہم کسی third party website سے dropshipping نہیں کر سکتے، اب  یہی آرڈر جو ہمیں supplier نے 1700 میں دیا، اس کو اگر ہم 3rd party  مثلا: walmart, ebay etc سے لے لے تو یہ ہمیں 1000 میں مل سکتا ہے، مگر اگر customer وہ چیز واپس کرتا ہے تو ہمیں کسٹمر کو مکمل پیسے واپس کرنے پڑتے ہیں تاکہ وہ amazon کو ہماری شکایت نہ لگائے کیوں کہ نقصان کی صورت میں amazon ہمارا اکاؤنٹ بند کردے گا، اور اگر ہم amazon سے ہی dropshipping کررہے ہوتے تو  ہم یہ پیسے پھر supplier سے وصول کرلیتے کیوں کہ amazon کی  return policy ہے، مگر   اس 3rd party سے نہیں لے سکتے کیوں کہ ان کی return policy نہیں ہوتی، تو نقصان ہمارا ہوجاتا ہے۔

پھر دوسری بات یہ کہ جب ہم 3rd partyکو کسٹمر کا پتہ بتادیتے ہیں تاکہ وہ آرڈر پہنچادے، تو اگر راستے میں آرڈر ٹوٹ جائے یا اس کو نقصان ہوجائے تو ہمیں  کسٹمر سے معذرت کرنی پڑتی ہے تاکہ وہ amazon کو شکایت نہ لگائے اور پھر اس کو order free کے ساتھ پیسے واپس کردیتے ہیں۔

اور تیسرا نقصان یہ ہے کہ وہ third party مثلا جب کسٹمر کو آرڈر پہنچادیتا ہے تو اس پر ebay کا invoice bill اور پیکنگ ہوگی، تو کسٹمر اس صورت میں اگر ایمازون کو شکایت لگائے 

جواب

واضح رہے کہ amazon ایک online website ہے،  جو تاجروں کو اپنا مال فروخت کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے، چناں چہ Amazon پر کا رو با رکرنے کے تین طریقے ہیں:ہول سیلپرائویٹ لیبل  اور ڈراپ شپنگ۔ 

ڈراپ شپنگ میں مندرجہ ذیل امور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:

1۔ انٹرنیٹ پرسونا چاندی یا کرنسی کی خریدوفروخت  ہو تو بیعِ صرف کے احکام کی رعایت  لازم ہوگی۔

2۔ مبیع  (فروخت کردہ چیز) اور ثمن  (قیمت کے طور پر طے کردہ چیز) کی مکمل تفصیل بتائی جائے، جس سے ہر قسم کی جہالت  اور ابہام ختم ہوجائے۔

3۔ کوئی بھی شرط فاسد نہ لگائی گئی ہو۔

4۔ صرف تصویر دیکھنے سے خیارِ رویت  ساقط نہ ہوگا، لہذا اگر مبیع تصویر کے مطابق نہ ہو تو مشتری کو واپس کرنے کا اختیار ہوگا۔

5۔ ویب سائٹ پر جان دار کی تصویر نہ لگائی جائے۔

6۔ اگر ویب سائٹ والے آرڈر ملنے پر کسی اور جگہ سے چیز مہیا کرتے ہوں تو صارف کو اس وقت تک نہ بیچیں، جب تک چیز ان کے قبضے میں نہ آجائے، البتہ وہ وکیل بالشراء (خریداری کے وکیل)کے طورپر معاہدہ کرسکتے ہیں، یا خریداروں سے بیع  (سودے) کے بجائے بیچنے کا وعدہ کرسکتے ہیں۔

7۔ ویب سائٹ پر اشیاء بیچنے والے  کو چاہیے کہ  ادائیگی کے لیے کریڈٹ کارڈ کا آپشن  دینے کے بجائے صرف ڈیبٹ کارڈ  یا    ڈیلیوری پر ادائیگی کا آپشن  دے؛ کیوں کہ  کریڈٹ کارڈ کا استعمال جائز نہیں، اگر چہ وقتِ مقررہ کے اندر ادائیگی کردی جائے اورسود دینے کی نوبت نہ آئے۔

نیز صورتِ مسئولہ میں سائل ایمازون کی پالیسی کی خلاف ورزی کا مرتکب ہورہا ہے ، چناں چہ  ایمازون کا اکاؤنٹ ہولڈر ہونے کی وجہ سے سائل  پر ایمازون کی پالیسی کا لحاظ رکھنا ضروری تھا،لہذا اگر مندرجہ بالا امور کا لحاظ رکھ لےتو بیع تو ہوجائے گی، تاہم معاہدے کی خلاف ورزی اور  وعدہ خلافی کرنے  کی وجہ سے وہ گناہ گار   ہوگا۔

مزید دیکھیے:

https://www.banuri.edu.pk/readquestion/144008200184/15-04-2019

صحيح البخاری  میں ہے:

"عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " آية المنافق ثلاث: إذا حدث كذب، وإذا ‌وعد ‌أخلف، وإذا اؤتمن خان۔"

(باب علامة المنافق:1/ 16، ط: دار طوق النجاۃ)

  فتاوی شامی میں ہے:

’’إذ من شرط المعقود عليه: أن يكون موجوداً مالاً متقوماً مملوكاً في نفسه، وأن يكون ملك البائع فيما يبيعه لنفسه، وأن يكون مقدور التسليم منح‘‘.

(کتاب البیوع، باب بیع الفاسد، 5/ 58، ط: سعید)

و فیہ ایضا:

"اعلم ‌أن ‌أسباب ‌الملك ‌ثلاثة: ‌ناقل ‌كبيع ‌وهبة ‌وخلافة ‌كإرث ‌وأصالة، وهو الاستيلاء حقيقة بوضع اليد أو حكما بالتهيئة۔"

(کتاب الصید: 6/ 463، ط: سعید)

تبیین  الحقائق  میں ہے :

"قال رحمه الله: (لا بيع المنقول) أي لا يجوز بيع المنقول قبل القبض لما روينا ولقوله عليه الصلاة والسلام "إذا ابتعت طعاما فلا تبعه حتى تستوفيه"۔ رواه مسلم وأحمد ولأن فيه غرر انفساخ العقد على اعتبار الهلاك قبل القبض؛ لأنه إذا هلك المبيع قبل القبض ينفسخ العقد فيتبين أنه باع ما لا يملك والغرر حرام لما روينا". 

(کتاب البیوع، 4/ 80، ط: المطبعة الكبرى الأميرية، بولاق، القاهرة)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو أعطاه الدراهم، وجعل يأخذ منه كل يوم خمسة أمنان ولم يقل في الابتداء اشتريت منك يجوز وهذا حلال وإن كان نيته وقت الدفع الشراء؛ لأنه بمجرد النية لا ينعقد البيع، وإنما ينعقد البيع الآن بالتعاطي والآن المبيع معلوم فينعقد البيع صحيحا. قلت: ووجهه أن ثمن الخبز معلوم فإذا انعقد بيعا بالتعاطي وقت الأخذ مع دفع الثمن قبله، فكذا إذا تأخر دفع الثمن بالأولى".

(کتاب البیوع، مطلب البیع بالتعاطی، 4/ 516، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100912

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں