بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دودھ کے کاروبار میں ایڈوانس رقم لینے کا حکم


سوال

ایک شخص دودھ خریدتا ہے 16 من روزانہ کی بنیاد پر اور وہ بائع کو سال کی ایڈوانس رقم ادا کر دیتا ہے، تو کیا ایسا معاملہ کرنا جائز ہے یا نہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں دودھ بیچنے والا( دودھی) اگر گاہک سےایڈوانس میں لی ہوئی رقم کے بدلے دودھ کی قیمت میں کمی کی شرط نہیں رکھتا،  تو دودھی کے لیے  گاہک سے ایڈوانس رقم لینا اوراسے اپنے استعمال میں لانا درست ہے ،اور اگر دودھ کی قیمت میں کمی کی شرط لگاتا ہے ،تو یہ معاملہ شرعاًدرست نہیں۔

مذکورہ سوال کی مکمل تفصیلات کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کریں :

دودھ کے کاروبار میں ایڈوانس رقم لینا

فتاویٰ ہندیہ میں ہے :

"قال محمد - رحمه الله تعالى - في كتاب الصرف إن أبا حنيفة - رحمه الله تعالى - كان يكره كل قرض جر منفعة قال الكرخي هذا إذا كانت المنفعة مشروطة في العقد بأن أقرض غلة ليرد عليه صحاحا أو ما أشبه ذلك فإن لم تكن المنفعة مشروطة في العقد فأعطاه المستقرض أجود مما عليه فلا بأس به وكذلك إذا أقرض رجلا دراهم أو دنانير ليشتري المستقرض من المقرض متاعا بثمن غال فهو مكروه، وإن لم يكن شراء المتاع مشروطا في القرض ولكن المستقرض اشترى من المقرض بعد القرض بثمن غال فعلى قول الكرخي لا بأس به وذكر الخصاف في كتابه وقال ما أحب له ذلك."

(كتاب البيوع، الباب التاسع عشر في القرض والاستقراض والاستصناع، 202،203/3، ط: رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے :

"(لا يقتضيه العقد ولا يلائمه وفيه نفع لأحدهما أو) فيه نفع (لمبيع) هو (من أهل الاستحقاق) للنفع بأن يكون آدميا، فلو لم يكن كشرط أن لا يركب الدابة المبيعة لم يكن مفسدا كما سيجيء (ولم يجر العرف به و) لم (يرد الشرع بجوازه) أما لو جرى العرف به كبيع نعل مع شرط تشريكه، أو ورد الشرع به كخيار شرط فلا فساد (كشرط أن يقطعه) البائع (ويخيطه قباء) مثال لما لا يقتضيه العقد وفيه نفع للمشتري (أو يستخدمه) مثال لما فيه نفع للبائع."

(كتا ب البيوع، باب البيع الفاسد ، مطلب فى البيع بشرط الفاسد ، 5/ 85، ط: سعيد )

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410101388

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں