بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دودھ کے کاروبار میں ایڈوانس رقم لینا


سوال

 کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں :

ہمارے ہاں بھینس کالونی میں دودھ کی سالانہ بندی کا معاہدہ کچھ اس طور پر طے پاتا ہے کہ باڑے والا(بائع)دُودھی (مشتری)سے یہ طے کر لیتا ہے کہ میں پورا سال (روزانہ کی چوائی کے حساب سے)آپ کو دودھ دیتا رہوں گا اور دودھ کی قیمت کی ادائیگی ہر دس دن بعدہوتی رہے گی،علاوہ ازیں فی من دودھ پر مثلاً دولاکھ ایڈوانس کی ادائیگی اس کے علاوہ ہوگی،یعنی اگر مثلاً کسی باڑے کا دودھ روزانہ کا بیس من ہے تو روزانہ کے دودھ کی قیمت کے علاوہ (جس کی ادائیگی ہر دسویں دن ہوتی ہے)چالیس لاکھ ایڈوانس بھی ملے گا، یہ ایڈوانس پورا سال باڑے والے کے زیر استعمال رہتا ہے، البتہ سال کے اختتام سے پہلے اس کی دودھی کوواپس کرنےکی ترتیب بنائی جاتی ہے۔

ہمارےہاں مقامی علماء نےا یڈوانس کی شرعی حیثیت کی تعیین کےلیےغورکیاہے، جس میں چندصورتیں سامنےآئی ہیں اوران صورتوں پرتبصرہ بھی درج ذیل ہے: 1)اگراس ایڈوانس کوسیکورٹی ڈپازٹ یارہن قراردیاجائےتومسئلہ یہ ہےکہ شےمرہون سےانتفاع جائزنہیں ،جب کہ یہ ایڈوانس سارا سال باڑےوالےکےزیراستعمال رہتاہے،لہذارہن قراردےنہیں سکتے۔

2)اگرایڈوانس کوامانت قراردیاجائےتومسئلہ یہ ہےکہ امانت توحفاظت سےرکھنےکانام ہے جس کی سبیل یہاں ممکن نہیں، دوسرایہ کہ بدونِ استہلاک امین بھی ضامن نہیں ہوتا جب کہ یہاں ہلاک واستہلاک بہرصورت باڑےوالا اس ایڈوانس رقم کی واپسی کاپابندہوتاہے۔

3)ایڈوانس کومحض تبرع قراردیاجائے،لیکن تبرع میں توواپسی مشروط نہیں ہوتی، لیکن یہاں ایڈوانس کی واپسی شرط ہوتی ہے۔

4)ایک صورت یہ ممکن ہےکہ ایڈوانس کوقرض قراردیاجائے،پھرسوال یہ پیداہوگاکہ دودھ کی بیع میں (ایڈوانس کی صورت میں )قرض لینےکی شرط شرطِ فاسد ہے،جس سےنفسِ بیع ہی فاسد ہوجائے، لیکن چوں کہ ایڈوانس رقم کی وصولی یہاں بھینس کالونی کی پوری دودھ مارکیٹ کارواج بن چکاہےاوربعض فقہائےکرام کی تصریح کےمطابق جب مارکیٹ میں کسی شرطِ فاسدکارواج بن جائےتواس سےبیع فاسدنہیں ہوتی (جیساکہ حضرت مولانامفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ نےبھی تقریرِ ترمذی  میں اس کی تصریح کی ہے)کےتحت (ایڈوانس کی فقہی حیثیت قرض متعین کرکےمارکیٹ رواج کااعتبارکرکے)اس بیع کوجائزرکھاجائے۔

آں جناب سےگزارش ہے کہ ازراہِ کرم اس مسئلہ پرغورفرماکرقابلِ عمل حل تجویز فرمائیں۔

وضاحت : روزانہ جتنی مقدار میں دودھ فروخت کیا جاتا ہے وہ مقدار/وزن معلوم القدر ہوتی ہے ، نیز دودھ والا گاہک سے جو ایڈوانس رقم لیتا ہے یہ دودھ کی پیشگی قیمت نہیں ہوتی ، دودھ کی قیمت تو ہر دس دن بعد الگ سے گاہک دودھ والے کو ادا کرتا ہے ۔

جواب

واضح رہے کہ مشتری بائع (بیچنے والے )کو جورقم ایڈوانس دیتا ہے وہ بائع کے پاس  ابتداء امانت ہوتی ہے البتہ عرفابائع کو اس کے استعمال کی اجازت ہوتی ہے لہذا یہ رقم بائع کےذمہ انتہاءً قرض ہوتی ہے  ، جیساکہ کرایہ داری کا معاملہ کرتے وقت ایڈوانس جو رقم لی جاتی ہے تو وہ رقم ابتداء امانت ہوتی ہے انتہاءً قرض ہوتی ہے ، لیکن اگر بائع ایڈوانس رقم اس شرط کے ساتھ لے کہ وہ اس کے بدلے چیز کی قیمت میں کمی کرے گا تو یہ جائز نہیں  ،لہذا صورتِ مسئولہ میں دودھ بیچنے والا( دودھی) اگر گاہک سے ایڈوانس میں لی ہوئی رقم کے بدلے دودھ کی قیمت میں کمی کی شرط نہیں رکھتا  تو دودھی کے لیے  گاہک سے ایڈوانس رقم لینا اوراسے اپنے استعمال میں لانا درست ہے ۔

نیززیر نظر مسئلہ میں  جس قدر ادھار پردودھ دےگا ، اس کی قیمت کے برابر رقم ایڈوانس لینا مقتضائے عقد کے مطابق  ہے ، اس لیے کہ بائع کا اتنا قرض مشتری کے ذمہ ہوگا مزید یہ کہ  دودھ کے کام کی نوعیت یہ ہے کہ اگر کسی دن دودھ  لینے والا پہلے سے موجو نہ ہوتو اس دن کا تمام دودھ ذخیرہ کرنا پڑتاہے جس کےلیے بہت سے انتظامات  کی ضرورت  ہوتی ہے ، اگر کسی کے پاس یہ انتظام نہ ہو تو  اس دن کا دودھ خراب ہوجانے کی وجہ سے ضائع کرنا پڑ تاہے ، لہذا اس غرض کے لیے اگر مشتری سے ایڈوانس لیا جائے اور پوری مارکیٹ ہی اس طرح ایڈوانس لیتی ہو تو یہ شرط فاسد نہیں ہے ، نہ ہی یہ بیع فاسد ہوگی ۔

تاہم جب  دونوں کا معاہدہ ختم ہوجائے تو مشتری کے ذمہ  ادائیگی باقی ہو تو دکاندار اس ایڈوانس میں سے منہا کردے اور بقایا رقم واپس کردے۔

فتاوٰی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه ‌كل ‌قرض ‌جر ‌نفعا حرام. قال ابن عابدين: (قوله ‌كل ‌قرض ‌جر ‌نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به."

(كتاب البيوع، باب القرض، مطلب ‌كل ‌قرض ‌جر ‌نفعا حرام، 166/5، ط: سعید)

فتاوٰی ہندیہ میں ہے

"قال محمد - رحمه الله تعالى - في كتاب الصرف إن أبا حنيفة - رحمه الله تعالى - كان يكره كل قرض جر منفعة قال الكرخي هذا إذا كانت المنفعة مشروطة في العقد بأن أقرض غلة ليرد عليه صحاحا أو ما أشبه ذلك فإن لم تكن المنفعة مشروطة في العقد فأعطاه المستقرض أجود مما عليه فلا بأس به وكذلك إذا أقرض رجلا دراهم أو دنانير ليشتري المستقرض من المقرض متاعا بثمن غال فهو مكروه، وإن لم يكن شراء المتاع مشروطا في القرض ولكن المستقرض اشترى من المقرض بعد القرض بثمن غال فعلى قول الكرخي لا بأس به وذكر الخصاف في كتابه وقال ما أحب له ذلك."

(كتاب البيوع، الباب التاسع عشر في القرض والاستقراض والاستصناع، 202،203/3، ط: رشيدية)

بدائع صنائع میں ہے :

"وكذلك إن كان مما لا يقتضيه العقد ولا يلائم العقد أيضا لكن للناس فيه تعامل فالبيع جائز كما إذا اشترى نعلا على أن يحدوه البائع أو جرابا على أن يخرزه له خفا أو ينعل خفه والقياس أن لا يجوز، وهو قول زفر - رحمه الله - (وجه) القياس أن هذا شرط لا يقتضيه العقد وفيه منفعة لأحد العاقدين وإنه مفسد كما إذا اشترى ثوبا بشرط أن يخيطه البائع له قميصا ونحو ذلك.

(ولنا) أن الناس تعاملوا هذا الشرط في البيع كما تعاملوا الاستصناع فسقط القياس بتعامل الناس كما سقط في الاستصناع، ولو اشترى جارية على أنها بكر أو طباخة أو خبازة، أو غلاما على أنه كاتب أو خياط، أو باع عبدا بألف درهم على أنها صحاح أو على أنها جياد نقد بيت المال أو اشترى على أنها مؤجلة فالبيع جائز؛ لأن المشروط صفة للمبيع أو الثمن صفة محضة لا يتصور انقلابها أصلا ولا يكون لها حصة من الثمن بحال، ولو كان موجودا عند العقد يدخل فيه من غير تسمية وإنها صفة مرغوب فيها لا على وجه التلهي، والمشروط إذا كان هذا سبيله؛ كان من مقتضيات العقد، واشتراط شرط يقتضيه العقد لا يوجب فساد العقد كما إذا اشترى بشرط التسليم وتملك المبيع والانتفاع به ونحو ذلك بخلاف ما إذا اشترى ناقة على أنها حامل أن البيع يفسد في ظاهر الرواية؛ لأن الشرط هناك عين وهو الحمل فلا يصلح شرطا."

(كتاب البيوع ، فصل في شرائط الصحة فى البيوع، 5/ 172،ط: رشیدیه)

فتاوی شامی میں ہے :

"(لا يقتضيه العقد ولا يلائمه وفيه نفع لأحدهما أو) فيه نفع (لمبيع) هو (من أهل الاستحقاق) للنفع بأن يكون آدميا، فلو لم يكن كشرط أن لا يركب الدابة المبيعة لم يكن مفسدا كما سيجيء (ولم يجر العرف به و) لم (يرد الشرع بجوازه) أما لو جرى العرف به كبيع نعل مع شرط تشريكه، أو ورد الشرع به كخيار شرط فلا فساد (كشرط أن يقطعه) البائع (ويخيطه قباء) مثال لما لا يقتضيه العقد وفيه نفع للمشتري (أو يستخدمه) مثال لما فيه نفع للبائع."

(كتا ب البيوع، باب البيع الفاسد ، مطلب فى البيع بشرط الفاسد ، 5/ 85، ط: سعيد )

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144401101217

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں