بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

داڑھی نہ رکھنا کبیرہ گناہ ہے


سوال

داڑھی  نہ رکھنے والے کو قیامت کے دن حوض کوثر نصیب نہ ہوگا ، یہ قول صحیح ہے یا غلط ؟ کیا یہ حدیث میں آیا ہے یا قرآن میں ؟

جواب

داڑھی تمام انبیائے کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کی سنت، مسلمانوں کا قومی شعار اور  مرد کی فطری اور طبعی چیزوں میں سے ہے، ا سی لیے رسول اللہ ﷺ نے اس شعار کو اپنانے کے لیے اپنی امت کو ہدایات دی ہیں اور اس کے رکھنے کا  حکم دیا ہے، اس لیے  جمہور علمائے امت کے نزدیک داڑھی رکھنا واجب اور اس کو کترواکریا منڈوا کر ایک مشت سےکم کرنا  حرام ہے اور کبیرہ گناہ ہے۔اور اس کا مرتکب فاسق اور گناہ گار ہے۔

"صحيح مسلم"میں ہے:

 "عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " عشر من الفطرة: قص الشارب، وإعفاء اللحية، والسواك، واستنشاق الماء، وقص الأظفار، وغسل البراجم، ونتف الإبط، وحلق العانة، وانتقاص الماء " قال زكريا: قال مصعب: ونسيت العاشرة إلا أن تكون المضمضة". 

(كتاب الطهارة، ج:1، ص:153، ط:دارالمنهاج)

’’ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت  ہے  کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دس چیزیں فطرت میں سے ہیں ( پیدائشی سنت ہیں): ایک تو مونچھ خوب  کتروانا، دوسری داڑھی چھوڑنا، تیسری مسواک کرنا، چوتھی پانی سے ناک صاف کرنا، پانچویں ناخن کا ٹنا، چھٹی انگلیوں کے جوڑوں کو دھونا، ساتویں بغل کے بال اُکھاڑنا، آٹھویں زیرِ ناف کے بال مونڈنا، نویں پانی سے استنجا کرنا۔  زکریاؒ روای کہتے ہیں کہ مصعبؒ نے کہا: میں دسویں چیز بھول گیا، مگر یہ کہ یہ کلی ہوگی۔‘‘

ایک حدیث میں ہے:

" عن أبي هریرة رضي اللّٰه عنه قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: جُزُّوا الشوارب، وأرخوا اللحی، خالِفوا المجوس".

(کتاب الطهارة، باب خصال الفطرة، ج: 1، ص: 129،  ط: بیت الأفکار الدولیة)

’’ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے    کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھاؤ، مجوسیوں کی مخالفت کرو۔‘‘

علامہ سبکی رحمہ اللہ  نے  "المنہل العذب المورود“ میں  لکھا ہے: 

" کان حلق اللحیة محرّماً عند ائمة المسلمین المجتهدین أبي حنیفة، ومالک، والشافعي، وأحمد وغیرهم -رحمهم الله تعالیٰ-".

 ( کتاب الطهارۃ، أقوال العلماء فی حلق اللحية واتفاقهم علی حرمته، ١ / ١٨٦، ط: مؤسسة التاریخ العربی، بیروت، لبنان ) 

’’ترجمہ:داڑھی کا منڈانا سب ائمہ مجتہدین امام ابو حنیفہ ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل وغیرہ رحمہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک حرام ہے۔‘‘

بوادر النوادر میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ   لکھتے ہیں:

" قال العلائي في کتاب الصوم قبیل فصل العوارض:  " إن الأخذ من اللحیة، وهي دون القبضة، کما یفعله بعض المغاربة ومُخنثة الرجال، لم یبحه أحد، وأخذ کلّها فعل الیهود والهنود ومجوس الأعاجم․ اهـ"  فحیث أدْمن علی فعل هذا المحرّم یفسق، وإن لم یکن ممن یستخفونه ولا یعدّونه قادحا للعدالة والمروة، إلخ." (تنقیح الفتاوي الحامدية، کتاب الشھادۃ، ٤ / ٢٣٨، 4/،ط: مكتبة رشیدية)

"قلت (الأحقر) : قوله: "لم یبحه أحد" نصٌّ في الإجماع، فق"․

(پچپنواں نادرہ در اجماع بر حرمت اخذ لحیہ دون القبضہ،ص:٤٤٣،   ط: ادارہ اسلامیات لاہور)

علامہ علائی رحمہ اللہ کی مذکورہ عبارت کے آخر میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ نے  لکھا ہے :

’’علامہ حصکفی رحمہ اللہ کا قول: "لم یبحه أحد"داڑھی منڈانے کی حرمت پر اجماع کی صریح دلیل ہے۔‘‘

حاصل یہ ہے کہ داڑھی رکھنا انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی سنت ہے اور شرعا واجب ہےاور ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کے نزدیک اس کا منڈوانا حرام ہے۔

باقی یہ بات کہ  ’’داڑھی  نہ رکھنے والے کو قیامت کے دن حوض کوثر نصیب نہ ہوگا‘‘ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں نہیں  مل سکی ،حدیث مبارک میں جن لوگوں کو حوض کوثر سے محروم کئے جانے کا ذکر ہے ،اکثر شارحین حدیث کے مطابق یہ وہ لوگ ہیں جو  مرتد ہوگئے تھے ،عام گناہگاروں کاذکر نہیں ملتا۔

،مزید تفصیل کے لئے درج ذیل لنک پر فتوی دیکھئے:

کیا داڑھی رکھنا واجب ہے؟ / کیا داڑھی کٹوانا گناہ نہیں؟

وفي مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح :

"وعن سهل - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم: " «إني فرطكم على الحوض، من مر علي شرب، ومن شرب لم يظمأ أبدا، ليردن علي أقوام أعرفهم ويعرفونني، ثم يحال بيني وبينهم، فأقول: إنهم مني، فيقال: إنك لا تدري ما أحدثوا بعدك؟ فأقول: سحقا سحقا لمن غير بعدي» ". متفق عليه

فيقال: إنك لا تدري ماذا أحدثوا بعدك) أي: من الارتداد، فإن سائر المعاصي لا تمنع المؤمن من ورود الحوض والشرب من مائه، ويدل عليه أيضا قوله: (فأقول: سحقا) : بضم فسكون ويضمان (سحقا) : كرر للتأكيد، أي: بعدا وهلاكا ونصبهما على المصدر، والجملة دعاء بالعذاب (لمن غير) أي: دينه (بعدي) أي: بعد موتي، أو بعد قبول ديني والدخول في أمتي. (متفق عليه)"

(باب الحوض والشفاعة،8/ 3538،الناشر: دار الفكر، بيروت)

وفي فتح الباري لابن حجر :

"ثم ليختلجن دوني وأن المراد طائفة منهم قوله فأقول يارب مني ومن أمتي فيه دفع لقول من حملهم على غير هذه الأمة قوله هل شعرت ما عملوا بعدك فيه إشارة إلى أنه لم يعرف أشخاصهم بأعيانها وإن كان قد عرف أنهم من هذه الأمة بالعلامة قوله ما برحوا يرجعون على أعقابهم أي يرتدون كما في حديث الآخرين."

(باب في الحوض،11/ 476،الناشر: دار المعرفة)

وفي عمدة القاري شرح صحيح البخاري :

"قوله " يحال " على صيغة المجهول من حال بين الشيئين إذا منع أحدهما من الآخر قوله " لسمعته " اللام فيه للتأكيد قوله وهو يزيد فيها أي والحال أنه يزيد في هذه المقالة والذي زاده هو قوله فأقول إلى قوله وقال ابن عباس قوله " سحقا " أي بعدا وكرر للتأكيد وهو نصب على المصدر وهذا مشعر بأنهم مرتدون عن الدين لأنه يشفع للعصاة ويهتم بأمرهم ولا يقول لهم مثل ذلك."

(باب في الحوض،23/ 141،ط:دار إحياء التراث العربي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506102250

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں