داڑھی رکھنا سنت ہے اور اس کو کتروانا اور منڈوانا گناہ ہے، اب سوال یہ ہے کہ داڑھی کتروانےسے زیادہ گناہ کا مرتکب ہوگا یا مکمل منڈوانے سے زیادہ گناہ ہوتا ہے، آج کل چھوٹی داڑھی کا رواج اور لمبی مونچھ کا رواج چل پڑا ہے؟
داڑھی تمام انبیاءِ کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کی سنت، مسلمانوں کا قومی شعار اور مرد کی فطری اور طبعی چیزوں میں سے ہے، ا سی لیے رسول اللہ ﷺ نے اس شعار کو اپنانے کے لیے اپنی امت کو ہدایات دی ہیں اور اس کے رکھنے کا حکم دیا ہے، اس لیے جمہور علماءِ امت کے نزدیک داڑھی رکھنا واجب ہے اور اس کو منڈوانا یا کترواکر ایک مشت سےکم کرنا حرام اور کبیرہ گناہ ہے، اور اس کا مرتکب فاسق اور گناہ گار ہے۔ داڑھی ایک مشت سے کم کرنا اور مونڈنا حکم میں برابر ہے؛ کیوں کہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ایک مشت سے کم داڑھی کرنا ثابت نہیں ہے۔
ڈاڑھی ایک مشت سے کم کروانا اور منڈانا دونوں حرام تو ہیں ہی، اس کے ساتھ اس میں خارجی اعتبار سے مزید مختلف کراہتیں جمع ہوجاتی ہیں، مثلا ڈاڑھی منڈانے میں عورتوں کی مشابہت ہے اور ڈاڑھی کے مختلف ڈیزائن بنانے میں سنت کا مذاق اور توہین بھی ہے، نیز داڑھی مشت سے کم رکھنے میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بعض لوگ اس پر مطمئن ہوجاتے ہیں کہ انہوں نے داڑھی رکھنے کی سنت پر عمل کرلیا ہے،حال آں کہ یہ غلط ہے۔
ڈاڑھی کی حد : کانوں کے پاس جہاں سے جبڑے کی ہڈی شروع ہوتی ہے، یہاں سے داڑھی کی ابتدا ہےاور پورا جبڑا داڑھی کی حد ہے، اور بالوں کی لمبائی کے لحاظ سے داڑھی کی مقدار ایک مشت ہے، اس سے زائد بال ہوں تو ایک مشت کی حد تک اس کو کاٹ سکتے ہیں، ڈاڑھی کے بارے میں یہی حکم اور معمول آں حضرت ﷺ اور صحٰابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے ۔ فقط واللہ اعلم
مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر جامعہ کا تفصیلی فتوی ملاحظہ کریں:
ڈاڑھی کی شرعی حیثیت اور ڈاڑھی نہ رکھنے کا گناہ
فتوی نمبر : 144201200030
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن