بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈاڑھی ایک مشت سے کم رکھنا


سوال

 چھوٹی داڑھی اور داڑھی کاٹنے میں کوئی فرق ہے کیا ؟

جواب

داڑھی تمام انبیائے کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کی سنت، مسلمانوں کا قومی شعار اور  مرد کی فطری اور طبعی چیزوں میں سے ہے، ا سی لیے رسول اللہ ﷺ نے اس شعار کو اپنانے کے لیے اپنی امت کو ہدایات دی ہیں اور اس کے رکھنے کا  حکم دیا ہے، اس لیے  جمہور علمائے امت کے نزدیک داڑھی رکھنا واجب ہے اور اس کو منڈوانا یا کترواکر ایک مشت سےکم کرنا  حرام اور کبیرہ گناہ ہے، اور اس کا مرتکب فاسق اور گناہ گار ہے۔ داڑھی ایک مشت سے کم کرنا اور مونڈنا حکم میں برابر ہے۔ کیوں کہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ایک مشت سے کم داڑھی کرنا ثابت نہیں ہے۔

کانوں کے پاس جہاں سے جبڑے کی ہڈی شروع ہوتی ہے، یہاں سے داڑھی کی ابتدا ہےاور  پورا جبڑا  داڑھی کی حد ہے، اور بالوں کی لمبائی کے لحاظ سے داڑھی کی مقدار ایک مشت ہے، اس سے زائد بال ہوں تو ایک مشت کی حد تک اس کو کاٹ سکتے ہیں، ڈاڑھی کے بارے میں یہی حکم اور  معمول آں حضرت ﷺ اور صحٰابہ رضی اللہ  عنہم سے مروی ہے ۔

چنانچہ ملاحظہ ہو:

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے "بزار" نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مجوسیوں کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھاؤ۔

 "عن أنس أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: خالفوا على المجوس جزوا الشوارب وأوفوا اللحى".  (مسند البزار = البحر الزخار ۔13/ 90)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے    کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھاؤ، مجوسیوں کی مخالفت کرو۔

"عن أبي هریرة رضي اللّٰه عنه قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: جُزُّوا الشوارب، وأرخوا اللحی، خالِفوا المجوس". (صحیح مسلم، کتاب الطهارة / باب خصال الفطرة ۱؍۱۲۹رقم:۲۶۰بیت الأفکار الدولیة)

حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ بواسطہ والد اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں:

"أَنَّ النَّبِيَ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يَأْخُذُ مِنْ لِحْيَتِهِ مِنْ عَرْضِهَا وَطُولِهَا".

ترجمہ: ’’نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی داڑھی مبارک لمبائی اور چوڑائی میں کم کرتے تھے۔‘‘ (سنن الترمذي، 5: 94، رقم: 2762، بيروت: دار إحياء التراث العربي)

"عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم قَالَ: خَالِفُوا الْمُشْرِکِينَ وَفِّرُوا اللِّحَی وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ. وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا حَجَّ أَوِ اعْتَمَرَ قَبَضَ عَلَی لِحْيَتِهِ فَمَا فَضَلَ أَخَذَهُ".

ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مشرکین کی مخالفت کرو، مونچھیں باریک کرو اور داڑھی بڑھاؤ۔ حضرت ابن عمر جب حج یا عمرہ کرتے تو اپنی داڑھی کو مٹھی میں پکڑتے اور جو اضافی ہوتی اس کو کاٹ دیتے۔‘‘ (صحيح البخاري، 5: 2209، رقم: 5553، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة)

مروان بن سالم مقفع رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا:

"يَقْبِضُ عَلَی لِحْيَتِهِ فَيَقْطَعُ مَا زَادَ عَلَی الْکَفِّ".

ترجمہ: ’’وہ اپنی داڑھی مبارک کو مٹھی میں پکڑ کر جو مٹھی سے زائد ہوتی اسے کاٹ دیتے تھے۔‘‘

  1. أبي داؤد، السنن، 2: 306، رقم: 2357، دار الفکر
  2. حاکم، المستدرك علی الصحيحين، 1: 584، رقم: 1536، دار الکتب العلمية بيروت

حضرت سماک بن یزید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، بیان کرتے ہیں:

"کَانَ عَلَيً رضی الله عنه يَأخُذُ مِنْ لِحْيَتِهِ مِمَّا يَلِيْ وَجْهَهُ".

ترجمہ: ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے چہرے کے قریب سے داڑھی مبارک کاٹتے تھے۔‘‘ (ابن أبي شيبة، المصنف، 5: 225، رقم: 25480، مکتبة الرشد الرياض)

حضرت ابو زرعہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

"کَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ رضی الله عنه يَقْبِضُ عَلَی لِحْيَتِهِ ثُمَّ يَأخُذُ مَافَضَلَ عَنِ القُبْضَةِ".

ترجمہ:’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اپنی داڑھی مبارک کو مٹھی میں پکڑتے اور مٹھی سے زائد داڑھی کو کاٹ دیتے تھے۔‘‘

العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية (1/ 329):
"وقال العلائي في كتاب الصوم قبيل فصل العوارض: إن الأخذ من اللحية وهي دون القبضة كما يفعله بعض المغاربة ومخنثة الرجال لم يبحه أحد، وأخذ كلها فعل يهود والهنود ومجوس الأعاجم اهـ فحيث أدمن على فعل هذا المحرم يفسق، وإن لم يكن ممن يستخفونه ولايعدونه قادحًا للعدالة والمروءة فكلام المؤلف غير محرر، فتدبر".

اس موضوع پر مستقل رسالے اور کتابیں لکھی گئی ہیں ، ڈاڑھی کے احکام سے متعلق مفتی  اعظم پاکستان مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ  کا  رسالہ "جواہر الفقہ" 7 جلد میں موجود ہے، اسی طرح حکیم الامت تھانوی صاحب کے افادات "ڈاڑھی منڈانا کبیرہ گناہ اور اس کا اس کا مذاق اڑانا کفر ہے" ، نیز  مولانا حفظ الرحمن  اعظمی ندوی صاحب کی " ڈاڑھی کی شرعی حیثیت " ، حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمدزکریا صاحب رحمہ اللہ کے بھی اس موضوع پر رسالے موجود ہیں، نیز اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں ، اور بازار میں دست یاب ہیں،ان کا مطالعہ کریں۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200186

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں