بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

داخلہ فارم میں طلبہ سے زکات وصولی کے وکالت نامہ پر دستخط لینے کی شرعی حیثیت


سوال

ہمارے مدرسے  کے  مہتمم  صاحب  نے  داخلہ فارم پر  یہ  شق لکھی ہے:

"مدرسے میں طلبہ کے لیے دی جانے والی کسی بھی  مد(زکوۃ،صدقات واجبہ ونافلہ وغیرہ) کی رقم مدرسہ کا مہتمم یا اس کا نمائندہ  طلبہ کی طرف سےبطور وکیل وصول کرے گا اور یہ قبضہ وکالت طلبہ کی طرف سے ملکیتی قبضہ تصور کیا جائے گااور طالب علم کی طرف سے مہتمم یا اس کا  نمائندہ مذکورہ رقم کسی بھی مد  (مدرسین کی تنخواہ،تعمیر مدرسہ و دیگر مدرسے کے کام)میں استعمال کرنے کا مجاز ہوگا۔"

اب سوال یہ ہے کہ یہ شق شرعًا درست ہے ؟آیا مہتمم یا اس کا نمائندہ مذکورہ  مد میں رقم خرچ کرنے کا مجاز ہوگایا مدرسے میں مہتمم کے  لیے وکالت کے جواز کی صورت ہوسکتی ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ زکات اور صدقات واجبہ کے مصارف شرعًا متعین ہیں، ان میں کسی قسم کی تبدیلی کا اختیار کسی کو نہیں ہے؛ لہذا   زکات کا مصرف مستحقِ زکات (غیر صاحبِ نصاب اور غیر سید)  فقیر شخص  ہے، اسے  زکات کی رقم بطور ِملکیت دی جائے تو  زکات ادا ہوگی ، ورنہ نہیں۔ شخصی تملیک کی صورت یہ ہے کہ:  جس  مستحق شخص  کو زکات دی جا رہی ہو  اس کو اس چیز میں تصرف کرنے کا مکمل اختیار دے کر  مالک بنا دیا جائے۔

  لہذا  صورتِ  مسئولہ میں  داخلہ فارم میں وکالت نامہ کی شق  بڑھانے سے مہتمم یا اس کے نمائندہ کو  زکات اور صدقات کے فنڈ میں  شریعت  کی طرف  سے مقررہ مصارف کے علاوہ کسی اورمصرف میں شخصی تملیک کے بغیر خرچ کرنے کی اجازت نہیں  ہوسکتی،  اگر  مہتمم  طالب علم سے سوال میں مذکورہ ترتیب کے مطابق خرچ  کرنے کی وکالت حاصل کر بھی لے، تب بھی ان حیلوں سے زکات کی رقم  تملیکِ شخصی کے بغیر  مقررہ مصارف کے علاوہ کسی مصرف میں خرچ کرنے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔ ایسے حیلے پر مشتمل وکالت نامے  پر بے شمار فقہی اعتراضات وارد ہوتے ہیں اور اس میں بہت سی وجوہِ فاسدہ پائی جاتی ہیں۔

تفصیل کے  لیے جواہر الفتاوی: «تملیکِ  زکات کے بارے میں حضرت رشید احمد گنگوہی (رحمہ اللہ) اور حضرت خلیل احمد سہارنپوری(رحمہ اللہ)  کی رائے» (1/ 53 تا 62)، اور   «مال زکات میں تملیکِ شرعی   ہر حال میں ضروری ہے»(2/ 441)،ط۔ اسلامی کتب خانہ کراچی،طبع:2011)  اور   جامعہ کے ویب سائٹ پر  موجودہ فتوی بعنوانِ  (مدرسہ انتظامیہ کا داخلہ کے وقت طلبہ اور ان کے سرپرستوں سے زکوۃ کی وصولی اور طلبہ پر خرچ کرنے کے وکالت نامہ پر دستخط لینا) ملاحظہ فرمائیں۔ فقط، واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200970

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں